
نااہلی کی قیمت : انکار کا خمیازہدنیا کی جدید تاریخ میں بہت کم اقوام ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ہی صلاحیت اور امکانات کو اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ ضائع کیا ہو جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس ملک کی جمہوری کاوشیں محض بیرونی سازشوں یا خطے کی مداخلت سے نہیں ڈگمگائیں بلکہ اصل وجہ اپنی ہی سیاسی قیادت کی ہمہ گیر نااہلی اور مسلسل ناپختگی ہے۔ پاکستان کے سیاسی انتشار کے مرکز میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے: جنہیں آئین کی حفاظت اور جمہوری ڈھانچے کی پرورش کا امین بنایا گیا، وہ ہمیشہ بصیرت، ضبط اور ذہنی صلاحیت سے محروم نکلے۔ یہی کمی ایک ایسا مکروہ شیطانی چکر بنا چکی ہے جو بار بار لوٹ آتا ہے۔ جب بھی سیاسی قیادت لڑکھڑاتی ہے تو وہ فوجی قیادت کو مدد کے لیے پکارتی ہے، کبھی براہِ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں۔ یہ پکار قومی مفاد کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی مصلحت، سیاسی عدمِ تحفظ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے زیرِ اثر کی جاتی ہے۔ یوں سیاست دانوں نے فوج کو ریاستی نظم کا شراکت دار نہیں بنایا بلکہ اپنی ناکامیوں کا سہارا بنا دیا، اور یوں فوج کو ان معاملات میں گھسیٹا جہاں بنیادی طور پر عوامی نمائندوں کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ یہی تسلسل بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ سیاسی طبقہ اپنی ہی انتخابی نشستوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو پورے نظام کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ جو سیاست دان دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے، جو رعایت اور سفارش کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے، اور جو آئین کی حدود اور قانون کی حکمرانی پر قائم نہیں رہ سکتے، وہ جمہوریت کے امین کیسے بن سکتے ہیں؟

جو اپنی سیاسی ساکھ کو سہارا نہیں دے سکتے، وہ پورے نظام کی ساکھ کے محافظ نہیں بن سکتے۔ یہ المیہ حالیہ مہینوں میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ اور امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی صلاحیت کو بیوروکریسی میں نہیں بلکہ فوج میں دیکھتی ہے۔ ان اہم مواقع پر پاکستان کی نمائندگی وزراء یا تجربہ کار بیوروکریٹس نے نہیں کی بلکہ وزیرِ اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کھڑے تھے۔ مخالف عناصر نے اسے فوج کے “شہری آزادیوں پر قبضہ” اور “آئینی حدود سے تجاوز” کے طور پر پیش کیا، مگر درحقیقت یہ زیادہ تلخ حقیقت کی عکاسی تھی: دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی اصل پیشہ ورانہ صلاحیت کہاں ہے۔ اور وہ پیشہ ورانہ صلاح عوامی قیادت میں نہیں۔

یہ انحصار محض آج کا نہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اہم قومی و بین الاقوامی مذاکرات نے بارہا سول اداروں کی ناپختگی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ کشمیر تنازعہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دور ہوں یا غیر ملکی امداد کی شرائط، بڑے قومی منصوبوں کی نگرانی ہو یا مالیاتی بحران کا حل ہر جگہ سیاسی ناکامی نے ریاست کو کمزور کیا۔ پانی کے مذاکرات میں جماعت علی شاہ کا کردار، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی .آئی .اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا زوال، اور آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار کی سبکی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ سیاسی قیادت نے قومی مفاد کو بارہا اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس کے برعکس فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے اداروں جیسے امریکی محکمۂ خارجہ، برطانوی فارن آفس یا بین ا لاقوامی سلامتی کے دیگر اداروں کی سطح پر اپنی مہارت دکھا سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا سے مکالمے کی اصل نمائندہ اس لیے بنی کہ سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خلا کو پر کرنے کی ناگزیر صورت تھی۔ کچھ حلقے فوجی کردار کو براہِ راست غیر آئینی اور آمرانہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ تنقید اس منطقی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ فوجی مداخلت کسی خلا میں جنم نہیں لیتی بلکہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب سیاسی رہنما اپنی غفلت اور کمزوری سے بحران کو جنم دیتے ہیں تو پھر غیر سول ادارے مداخلت پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوج پر جمہوریت پر قبضہ کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قیادت نہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے، نہ آئین کی پاسداری کر سکتی ہے، اور نہ ہی ریاستی امور کی بنیادی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے، وہ کس منہ سے بالادستی کی دعوے دار بن سکتی ہے؟ اور عوام یا دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے؟ اس صورتِ حال کا حل بار بار کی مداخلت یا “سول بالادستی” کے اندھے نعرے نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی فکری، تنظیمی اور اخلاقی کمزوریوں کا اعتراف کرے۔ جب تک اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں ہو گا، کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہیں حقیقی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا، ایسا اتفاق جو وقتی جوڑ توڑ پر مبنی نہ ہو بلکہ ریاستی استحکام، قانون کی حکمرانی اور قومی ترجیحات پر پائیدار سمجھوتہ ہو۔ تبھی وہ ریاستی ذمہ داری سنبھالنے اور جمہوریت کے تحفظ کا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی پختگی سامنے نہیں آتی،

سول بالادستی کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ بالادستی سے پہلے صلاحیت ضروری ہے۔ خودمختاری صرف نعروں اور تقریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی، اس کے لیے بصیرت، ادارہ جاتی ضبط اور فکری طاقت درکار ہے۔ ان اوصاف کے بغیر پاکستان ہمیشہ اسی دائرے میں قید رہے گا: سیاسی قیادت ناکام، فوجی قیادت مداخلت کرتی ہوئی، اور ریاست معلق حیثیت میں جھولتی ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ انہوں نے بارہا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی، فوج کو وہاں گھسیٹا جہاں اس کا کام نہیں تھا، اور جمہوریت کو ایک سرکاری نوکریوں اور نوازشات کی منڈی میں بدل دیا۔ جب تک اس حقیقت کا اعتراف اور تدارک نہیں ہوتا، ریاست ایسے ہی خودساختہ بحرانوں میں پھنسی رہے گی، اور ہر نیا بحران پچھلے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اس سلسلے کی اگلی قسط ریاستی زوال کے ایک اور سنگین پہلو پر روشنی ڈالے گی: پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی۔ جس طرح سیاسی قیادت نے حکومت کو ترک کیا، اسی طرح عدلیہ نے بھی انصاف کو چھوڑ دیا۔ دونوں نے مل کر ریاست کو ایک نازک توازن پر لٹکا دیا ہے، جہاں نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی قانون۔ (جاری ہے)

دفتر وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ قیصر احمد شیخ چنیوٹ تاریخ: 28 ستمبر 2025*سیلاب متاثرین کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے، قیصر احمد شیخ*چنیوٹ: وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ،

جناب قیصر احمد شیخ نے آج سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان کی مکمل بحالی کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے

۔وفاقی وزیر نے کہا کہ نقصانات کے تخمینے کے لیے وفاقی و صوبائی ٹیمیں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر سروے کر رہی ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو فوری ریلیف اور معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔انہوں نے اس موقع پر ملکی خارجہ پالیسی کے حالیہ کامیاب پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے امریکہ، چین اور سعودی عرب سمیت بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

حالیہ اقتصادی معاہدے پاکستان کے مستقبل کے لیے “گیم چینجر” ثابت ہوں گے۔قیصر احمد شیخ نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا حامی رہا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران یہ موقف واضح طور پر پیش کیا ہے۔

وزیراعظم کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور نئے معاہدے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ سے آن لائن اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین کی جلد سے جلد بحالی کے لیے ہدایات جاری کی ہیں

اپنے دورے کے دوران وفاقی وزیر نے جامعہ آباد ریلیف کیمپ کا معائنہ کیا اور موضع نوشہرہ میں متاثرہ کسانوں کو جانوروں کے لیے چارہ بھی تقسیم کیا۔

*پاکستانی کھلاڑی نور زمان نے کینیڈا میں نیش کپ اسکواش ٹورنامنٹ جیت لیا*پاکستان کے نور زمان نے کینیڈا میں کھیلے گئے نیش کپ اسکواش ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔ فائنل میں انہوں نے مصر کے سیکنڈ سیڈ مصطفیٰ السرطی کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی۔ میچ 52 منٹ تک جاری رہا،

جس میں نور زمان نے پہلا گیم سخت جدوجہد کے بعد 19-17 سے جیتا۔ دوسرے اور تیسرے گیم میں بھی شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بالترتیب 11-7 اور 11-9 سے کامیابی حاصل کی، یوں تین صفر کی برتری کے ساتھ ٹورنامنٹ جیت لیا۔

تیسری جانب گائے کے بچھڑے ہندوتوا اور مودی اور اس کے پا;گل سنکی ساتھی!یہ بھی نا یہو-د-یوں کو دل سے پسند کرتے ہیں نا سلیبیوں کو نا کسی مسلمان نا بدھسٹوں کو بلکہ یہ واحد قوم ہے جو یہو-د کے بعد اپنے علاؤہ سب سے نفرت کرتی ہے۔ پاکستان کا وجود آج تک انہوں نے دل سے کبھی نا تسلیم کیا نا کریں گے اسی سبب سے، لیکن یہ بھی ایسے گڑھے میں گرنے جارہے ہیں کہ بہت زیادہ پچھتائیں گے، سب سے پہلے انکو سبق ملے گا۔

یہ گندخور سو-ر کی مثال ہیں جسے نا عقل ہے نا کوئی آئین و قانون مانتے کیونکہ یہ خدا بھی 33 کروڑ بتوں کی صورت مانتے بلکہ لگے ہاتھوں اسی سال ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی پوجا کر ڈالی۔ دراصل یہ خود کو صرف خود کو دنیا کی سب سے عقلمند قوم سمجھتے ہیں د-ھو-کہ ان کا مذ-ہب ہے خوشامد ان کا ایمان ہے۔ اور سفاکیت انکا عمل ہے۔ اور حسد ان کی رگ رگ میں ہے۔ جیسے سو-ر احمق اور بیشر-م جانور ہے یہ اسی کی بلکل ٹھیک ٹھیک مثال ہیں۔ ان کو رب تعالیٰ نے ایسا پھنسانا ہے کہ بلکل بے یارو مددگار ہو کر ہمارے گھیرے میں آئیں گے اور جس چیز سے بھا!گتے ہیں یعنی جہا!د وہی انکا آخری نصیب ہوگا ان شاءاللہ تعالیٰ لیکن خبردار اسے کمزور ہرگز مت سمجھنا اور چالبازی میں مکمل خینز-یر ہیں۔ چانکیہ کی باقیات خود کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اب تاریخ کی ساری کسر نکال کر رہے گی۔ ان شاءاللہ اللہ ھو اکبر!تحریکِ نظریہ پاکستان 🇧🇩🇵🇰🇸🇦🇵🇸🇹🇷🇦🇿🇨🇳⚔️

امریکی مسسلح افواج کے مرد اور خاتون پائلٹ نے ہتھیاروں سے لدے جہازوں کو اصرائیل لے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، انہیں پینٹاگون بلایا گیا اور زبردستی گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔براہِ کرم کلپ دیکھیں، اس سے پہلے کہ یہ انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے، اسے شیئر کریں۔ تاکہ پوری دنیا کو پتا چلے کہ فلصطین کی بربا!دی میں سب سے بڑا ہاتھ اور پہلا نمبر امریکہ کا ہے۔ 😢💔😭

ہیڈ اسلام وہاڑی کے قریب کار اور بس میں تصادم، 6 افراد جاں بحقجاں بحق ہونے والے کار سوار افراد فیصل آباد کے رہائشی تھے

نازیہ حسن سے کل بھی محبت کرتا تھا آج بھی اسے بہت یاد کرتا ہوں، طلاق کی خبریں جھوٹی ہیں وہ فوت ہوئی تو میری بیوی تھی ، زوہیب نے جو الزامات لگائے سب بے بنیاد ہیں ، نازیہ حسن نے میرے ساتھ شادی کے بعد گلوکاری چھوڑ دی ، جس کا اثر زوہیب پر پڑا اور وہ زیرو ہو کر رہ گیا ، اس نے چالیں چل کر ہماری شادی خراب کی ۔ نازیہ کی موت کینسر سے ہوئی اس کا سرٹیفکیٹ لندن کے ہسپتال نے جاری کیا جہاں وہ زیر علاج رہی۔ ۔۔۔نازیہ حسن کے شوہر معروف بزنس میں اشتیاق بیگ کے انکشافات

، 28 ستمبر 2025وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کا عالمی دن برائے رسائی معلومات (access to information) کے موقع پر پیغام معلومات تک رسائی کے عالمی دن کے موقع پر حکومت پاکستان ہر شہری کے اس بنیادی حق کی غیر متزلزل توثیق کرتی ہے کہ وہ معلومات کی تلاش، وصول اور ترسیل کرے۔ معلومات تک رسائی نہ صرف ایک جمہوری حق ہے بلکہ شفافیت، جوابدہی، اور عوامی خودمختاری کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے۔آج کی آپس میں جڑی ہوئی دنیا میں، معلومات کا آزادانہ بہاؤ اچھی حکمرانی کو مضبوط کرتا ہے، سماجی شمولیت کو فروغ دیتا ہے، اور ریاست اور اس کے لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔

باخبر معاشروں کے ذریعے ہی قومیں امن، انصاف، اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھ سکتی ہیں۔پاکستان نے قانون سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے شہریوں کے معلومات کے حق کی ضمانت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ ہم اس بات کے عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے کہ معاشرے کے تمام طبقے، خاص طور پر خواتین، نوجوان اور پسماندہ طبقات کو، ڈیجیٹل دور میں معلومات تک مساوی رسائی سے مستفید ہو سکیں۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن، حق تک رسائی قانون 2017 کے تحت، ایک جزوی عدالتی فورم ہے،

جو معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے اور شہریوں کی شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔ عوامی ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور اس کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ڈیجیٹائزیشن کا عمل بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ آج کے دن، میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومتی اداروں، سول سوسائٹی، میڈیا، اور ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمز سے اپیل کرتا ہوں

کہ مل کر ایک زیادہ کھلی، شفاف، اور علم پر مبنی معاشرہ بنانے کے لیے کام کریں۔ ایسا کرکے، ہم اپنے لوگوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں، اپنی جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں، اور پاکستان کے ترقی اور خوشحالی کی طرف سفر کو تیز کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم اپنی عزم کی تجدید کریں کہ ہم سب کے فائدے کے لیے معلومات تک عالمی رسائی کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے کام کریں گے۔

امریکی مسسلح افواج کے مرد اور خاتون پائلٹ نے ہتھیاروں سے لدے جہازوں کو اصرائیل لے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، انہیں پینٹاگون بلایا گیا اور زبردستی گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔براہِ کرم کلپ دیکھیں، اس سے پہلے کہ یہ انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے، اسے شیئر کریں۔ تاکہ پوری دنیا کو پتا چلے کہ فلصطین کی بربا!دی میں سب سے بڑا ہاتھ اور پہلا نمبر امریکہ کا ہے۔ 😢💔😭