تازہ تر ین

ایک زمانہ تھا جب ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگز محض ملکی سطح تک محدود نہیں رہتی تھیں بلکہ دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جاتی تھیں۔ ان بریفنگز کو دشمن ممالک کے تھنک ٹینکس تک تجزیے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور انہی سے ریاستِ پاکستان کا بیانیہ تشکیل پاتا تھا۔جہانگیر نصراللہ سے افتخار بابر تک— وہ تمام افسران، اگرچہ صرف میجر جنرل کے رینک پر تھے، مگر ان کے الفاظ میں ادارے کی ساکھ، اعتماد، اور بیانیے کی طاقت جھلکتی تھی۔ وہ بولتے تھے تو قوم سنتی تھی، دشمن سوچتا تھا، اور دنیا نوٹس لیتی تھی۔

ایک زمانہ تھا جب ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگز محض ملکی سطح تک محدود نہیں رہتی تھیں بلکہ دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جاتی تھیں۔ ان بریفنگز کو دشمن ممالک کے تھنک ٹینکس تک تجزیے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور انہی سے ریاستِ پاکستان کا بیانیہ تشکیل پاتا تھا۔جہانگیر نصراللہ سے افتخار بابر تک— وہ تمام افسران، اگرچہ صرف میجر جنرل کے رینک پر تھے، مگر ان کے الفاظ میں ادارے کی ساکھ، اعتماد، اور بیانیے کی طاقت جھلکتی تھی۔ وہ بولتے تھے تو قوم سنتی تھی، دشمن سوچتا تھا، اور دنیا نوٹس لیتی تھی۔

مگر آج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کا منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔ نہ وہ ادارتی قوت باقی رہی، نہ وہ قومی بیانیے کی گونج جو پہلے پاکستان کی آواز کو عالمی فورمز تک پہنچاتی تھی۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ ڈی جی صاحب — باوجود اپنی دیانتداری اور شائستگی کے — اپنے ادارے کو مؤثر ابلاغ کے میدان میں ایک متحرک قوت کے بجائے ایک خاموش تماشائی بنا بیٹھے ہیں۔یہ صرف احمد شریف کی ناکامی نہیں بلکہ ان کے گرد موجود ٹیم کی فکری کمزوری، تزویراتی ناپختگی اور پروفیشنل بےسمتی کا مظہر بھی ہے۔ایمانداری اپنی جگہ، مگر قومی بیانیے کی حفاظت صرف نیک نیتی سے نہیں بلکہ بصیرت، جراتِ اظہار، اور حکمتِ عملی سے ممکن ہوتی ہے۔ احمد شریف انہیں ریاستی تاثر کی قیادت سونپی گئی تھی— مگر بدقسمتی سے وہ قیادت اب پس منظر میں گم ہو چکی ہے۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Baadban Tv. All Rights Reserved