*پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی کابینہ تشکیل**سلیکشن کمیٹی**ہیڈ سرفراز احمد۔ اظہر علی۔ شاہد خان آفریدی**ہیڈ کوچ**یونس خان**اسپن باولنگ کوچ۔ ثقلین مشتاق**فاسٹ باولنگ کوچ۔ وسیم اکرم۔ شعیب اختر۔ عمر گل۔*

وزیرِ اعظم پاکستان محمد شہباز شریف ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ماہ نور چیمہ کی ملاقات وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے دورہ لندن کے دوران تعلیمی میدان میں ورلڈ ریکارڈ ہولڈر پاکستانی نژاد طالبہ ماہ نور چیمہ سے ملاقات کی.وزیرِ اعظم نے ماہ نور چیمہ کو اے لیول کے امتحانات میں 24 مضامین میں انفرادی طور پر امتیازی گریڈ کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے اور شاندار کارکردگی دکھانے پر دلی مبارکباد دیوزیرِ اعظم نے کہا کہ ماہ نور چیمہ ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ اور نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔انہوں نے ماہ نور کے والدین کو بھی اس کامیابی پر مبارکباد دی اور ماہ نور کے لیے مزید کامیابیوں کی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اس موقع پر وزیرِ اعظم نے ماہ نور چیمہ کو تحائف بھی پیش کیے۔ ماہ نور چیمہ نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تعلیمی میدان میں مزید کامیابیاں حاصل کرے گی.
امریکہ نے طالبان حکام پر سفری پابندیاں ختم کر دیں،افغان وزیر خارجہ ایک ہفتے کے دورہ پر بھارت جا رہے ہیں،حامد کرزئی دور کے قونصلیٹ کی بحالی اور بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں پر بات ہو گی ۔امریکی سہولت کاری کر رہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگز محض ملکی سطح تک محدود نہیں رہتی تھیں بلکہ دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جاتی تھیں۔ ان بریفنگز کو دشمن ممالک کے تھنک ٹینکس تک تجزیے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور انہی سے ریاستِ پاکستان کا بیانیہ تشکیل پاتا تھا۔جہانگیر نصراللہ سے افتخار بابر تک— وہ تمام افسران، اگرچہ صرف میجر جنرل کے رینک پر تھے، مگر ان کے الفاظ میں ادارے کی ساکھ، اعتماد، اور بیانیے کی طاقت جھلکتی تھی۔ وہ بولتے تھے تو قوم سنتی تھی، دشمن سوچتا تھا، اور دنیا نوٹس لیتی تھی۔مگر آج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کا منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔ نہ وہ ادارتی قوت باقی رہی، نہ وہ قومی بیانیے کی گونج جو پہلے پاکستان کی آواز کو عالمی فورمز تک پہنچاتی تھی۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ موجودہ ڈی جی صاحب — باوجود اپنی دیانتداری اور شائستگی کے — اپنے ادارے کو مؤثر ابلاغ کے میدان میں ایک متحرک قوت کے بجائے ایک خاموش تماشائی بنا بیٹھے ہیں۔یہ صرف احمد شریف کی ناکامی نہیں بلکہ ان کے گرد موجود ٹیم کی فکری کمزوری، تزویراتی ناپختگی اور پروفیشنل بےسمتی کا مظہر بھی ہے۔ایمانداری اپنی جگہ، مگر قومی بیانیے کی حفاظت صرف نیک نیتی سے نہیں بلکہ بصیرت، جراتِ اظہار، اور حکمتِ عملی سے ممکن ہوتی ہے۔ احمد شریف انہیں ریاستی تاثر کی قیادت سونپی گئی تھی— مگر بدقسمتی سے وہ قیادت اب پس منظر میں گم ہو چکی ہے۔

شرم الشیخ: ٹرمپ منصوبے پر فیصلہ کن مذاکرات!!مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں کل پیر کے روز وہ فیصلہ کن مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد پر بات چیت ہوگی۔ اس منصوبے کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کو یقینی بنانا ہے، جو اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہونے والی ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ پیر کو واشنگٹن میں دجالی خنزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ جنگ ختم کرنے اور اسرائیل و اسلامی مزاحمت کی تحریک کے درمیان یدیوں کے مکمل تبادلے کے لیے ایک امن فارمولا پیش کر رہے ہیں۔مزاحمت کا ردعمل:اسلامی مزاحمت کی تحریک نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں اعلان کیا ہے کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں، زندہ اور مردہ، دونوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے اور وہ غزہ کی انتظامیہ کو غیر جانبدار فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی ایک عارضی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ تاہم تحریک نے یہ بھی کہا کہ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق سے متعلق امور پر مشترکہ قومی موقف اپنایا جائے گا، جو بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی بنیاد پر طے پائے گا۔اسرائیلی منظوری اور امریکی مؤقف:امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے بھی ان کے منصوبے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے اور فوجی انخلا کے ابتدائی خاکے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اسرائیلی فوج کی واپسی کا منصوبہ ایک نقشے کی صورت میں مزاحمت کو دکھایا گیا ہے، جس کے تحت دجالی فوج کو غزہ کی سرحد سے ڈیڑھ سے ساڑھے تین کلومیٹر پیچھے ہٹنا ہوگا۔ تاہم اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، دجالی ریاست اب بھی 3 اسٹرٹیجک مقامات پر طویل المدت فوجی موجودگی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے: (1) غزہ کی سرحد کے اندر ایک عارضی بفر زون۔ (2) فیلاڈلفیا راہداری (مصر کی سرحد پر) اور(3) تلہ 70 کے علاقے میں ایک پہاڑی چوٹی، جو شمالی غزہ پر عسکری اور بصری برتری فراہم کرتی ہے۔مذاکرات میں کون شریک ہے؟مصری وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ اسلامی مزاحمت کی تحریک اور اسرائیلی وفود سمیت قطر، امریکہ اور دیگر ثالث ممالک کے نمائندوں کی میزبانی کرے گی۔ الجزیرہ کے مطابق، مزاحمت کا وفد آج اتوار کو دوحہ سے مصر روانہ ہو چکا ہے، جبکہ قطری وفد کل مذاکرات کے آغاز پر شریک ہوگا۔ امریکی حکام کے مطابق، مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی مصر پہنچ رہا ہے، جبکہ جیرڈ کشنر (ٹرمپ کا داماد) بھی مذاکرات میں شریک ہوگا۔امریکی مقاصد؟صدر ٹرمپ نے امریکی ویب سائٹ Axios کو بتایا کہ ان کا مقصد غزہ کی جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا ہے۔ ان کے بقول: “یہ جنگ اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر چکی ہے اور میرا مقصد اس کی بین الاقوامی حیثیت اور ساکھ کو بحال کرنا ہے۔” ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ دجالی وزیر اعظم کے پاس اب میری پیش کردہ امن تجویز کو ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔عرب و اسلامی ممالک کا ردعمل:قطر، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے اتوار کے روز ایک مشترکہ بیان میں مزاحمت کے اقدام کا خیر مقدم کیا اور ٹرمپ امن منصوبے پر بات چیت شروع کرنے کی حمایت کی۔ ان ممالک نے کہا کہ ضروری ہے کہ تمام فریق مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا فریم ورک طے کریں جو مکمل اسرائیلی انخلا اور جامع امن کی ضمانت دے۔منصوبے کی بنیادی نکات:جنگ بندی کا فوری نفاذ اور قیدیوں کا تبادلہ 72 گھنٹوں میں۔اسرائیلی فوج کا تدریجی انخلا۔اسلامی مزاحمت کی تحریک کے عسکری و انتظامی کردار کا خاتمہ۔غزہ کی نگرانی ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹس اتھارٹی کے سپرد کرنا، جس پر صدر ٹرمپ براہِ راست نگرانی کرے گا۔ٹرمپ کا یہ منصوبہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کی سمت ایک بڑا قدم تصور کیا جا رہا ہے، لیکن میدانِ عمل میں اس کی کامیابی کا انحصار فریقین کے عملی تعاون پر ہوگا۔ مزاحمتی تحریک کی مشروط رضامندی اور اسرائیل کی سیکورٹی شرائط مستقبل کے مذاکرات کو نہایت نازک بنا رہی ہیں۔اللہ کرے کہ یہ مذاکرات اہل غزہ کے لیے کوئی مثبت پیغام لائیں اور 2 سال بعد انہیں امن نصیب ہو۔ آمین۔

ہم چھوٹے چھوٹے مسائل کو فوری حل کرنے کی بجائے انہیں ٹالتے رہتے ہیں، اور یہی چھوٹے مسائل دبے چھپے ایک بڑے مسئلے کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ بڑے مسائل پھر ایک عظیم بحران کے گہرے گڑھے میں جا گرتے ہیں، جہاں دیگر مسائل بھی شامل ہو کر تعفن پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تعفن ہر طرف پھیلتا ہے اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مثال کے طور پر، گھر کے باہر کوڑا پھینکنے کی معمولی عادت وقت کے ساتھ پورے علاقے کو گندگی کے ڈھیر میں بدل دیتی ہے۔جب مسائل بڑھتے ہیں تو وہ گھنے جنگل کی طرح آپس میں الجھ جاتے ہیں۔ اگر یہ جنگل کیکر کا ہو تو اس سے گزرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نہ صرف کانٹے راستے کی دیوار بن جاتے ہیں بلکہ گھنے جنگل میں چھپی جنگلی مخلوق خطرات کو اور بڑھا دیتی ہے۔ ایسی صورت میں راستہ تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔اگر آپ کسی بڑے مسئلے کا سرا پکڑ کر اس کی جڑوں تک جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس کے پیچھے کوئی طاقتور گروہ یا کارٹل موجود ہے جو اسے کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ یہی کارٹلز مل کر ہمارے درمیان اور اردگرد کانٹوں کا گھنا جنگل اور گندگی کا گڑھا بنا دیتے ہیں، جس میں ہم سب پھنس چکے ہیں۔سیاست اور مزاح کا آپس میں گہرا تعلق نظر آتا ہے، شاید اسی لیے سیاستدانوں کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ماضی میں سیاست فکر و عمل کا میدان ہوا کرتی تھی۔ ارسطو، سقراط، افلاطون، میکاولی، مورگن تھاؤ، کانت اور چانکیہ جیسے مفکرین نے سوچ کی آخری حدود کو چھوا۔ لیکن خروشیف، ہٹلر، مسولینی، نیتن یاہو، مودی، حسنی مبارک اور حسینہ واجد جیسے رہنماؤں نے فکر و آگہی کی دیواروں کو مسمار کر کے دنیا کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔مسائل حل نہ کرنے کی عادت اور ان کے بڑھنے کے اثرات اب دنیا پر واضح ہو رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا چیلنج آزاد منڈی کی معیشت میں لالچی سوداگروں کے دھوکے کو روکنا ہے۔چھوٹی چھوٹی عادتیں جب پختہ ہو جاتی ہیں تو وہ افراد اور معاشروں کا کردار بن جاتی ہیں۔ قطار بنانا، ٹریفک سگنل پر رکنا، دائیں طرف سے اوورٹیک کرنا، سچ بولنا، کوڑے دان کا استعمال، عوامی مقامات پر نہ تھوکنا، وقت پر کھانا کھانا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، جلدی سونا اور پانچ وقت کی نماز کی پابندی — اگر یہ عادتیں بچپن سے ہماری زندگی کا حصہ ہوں تو بڑے ہو کر ہم ٹیکس ادا کریں گے، ملازمین کی تنخواہ وقت پر دیں گے اور ملاوٹ یا ذخیرہ اندوزی سے گریز کریں گے، کیونکہ اچھی عادتیں ہمیں برے کاموں سے روکتی ہیں۔ اچھی عادت ایک ایسی حد ہے جو ہمیں غلط کاموں سے باز رکھتی ہے۔رچرڈ ایچ تھیلر اور کاس آر سنسٹین کی کتاب “نج” (Nudge) معاشروں کی بہتر تشکیل کے لیے ایک مفید رہنما ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کو مکمل آزادی دیں لیکن ان کی چھوٹی عادات کو بہتر بنائیں تاکہ بڑے ہو کر وہ بہتر فیصلے کر سکیں۔ یہ عادتیں علامتی طریقوں (سمبولزم) سے پروان چڑھائی جاتی ہیں، جیسے مسجد میں جوتوں کے بغیر داخل ہونا، جو پاکیزگی اور احترام کی علامت ہے۔علامتیں ایک تحریک کی مانند ہیں۔ مثال کے طور پر، قومی ترانہ بجے تو احترام میں کھڑے ہو جائیں، اذان شروع ہو تو خاموش ہو جائیں، بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں، کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھیں۔ مغربی معاشروں میں ان چھوٹی پابندیوں سے معاشرے کو منظم کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ٹریفک قوانین کی پابندی اور قطار بنانے کی عادت خودغرضی سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ عادتیں نہ صرف انفرادی کردار بلکہ پورے معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔