
ملڑے کی حکومت ۔اظہر سیدامارات اسلامی خطہ کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتی مس فٹ ہونے کی وجہ سے اگلے چند ماہ میں ختم کر دی جائے گی ۔یہ حکومت نام کی اسلامی ہے حقیقت میں خواتین کی تعلیم پر پابندیاں لگا کر دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف ہے ۔قرآن پاک کی ابتدا “اقرا یعنی رب کے حکم سے پڑھ” سے ہوئی ہے اور ملڑا کہتا ہے نہ پڑھ میرے حکم سے ۔یا تو دنیا کے باقی سارے اسلامی ممالک جہاں خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں غلط ہیں یا پھر افغان ملڑے کی اسلامی حکومت غلط ہے ۔یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ملڑے کی حکومت اپنی سر زمین پر بلوچ عسکریت پسندوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر کے چین کے فلیگ شپ معاشی منصوبہ سی پیک کے خلاف مہم میں شامل ہوئی ہے ۔ملڑے کی یہ پہلی حکومت ہے جو پاکستان کے خلاف طالبعلموں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر لانچ کر رہی ہے ۔یہ پہلی حکومت ہے جو ایران کی طرف سے نکالے گئے افغانڈوز کو دوبارہ اپنی سرپرستی میں ایران واپس بھیجنے میں سہولت کاری کر رہی ہے ۔جب ملڑے بیک وقت خطہ کے تین طاقتور ممالک کے خلاف اقدامات کر رہے ہوں تو اس حکومت کو بنگلادیش،سری لنکا اور نیپال کی طرح ختم کرنا وقت کا تقاضا ہے

۔اگر ملڑے کی حکومت میں چین ،پاکستان اور ایران مخالف گروپ طاقت حاصل کر چکے ہیں ۔اگر ملڑے کی حکومت داعش،القائدہ اور طالبعلموں کے مسلح جتھوں سے خوفزدہ ہو کر اپنی آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہے تو بھی اس حکومت کو ختم کرنے کا بڑا جواز یہی ہو گا ۔بگرام ائر بیس کے معاملہ پر ملڑے کی حکومت بظاہر امریکی صدر کے لتے لے رہی ہے لیکن ہر مہینے اسی امریکہ سے مالی معاونت بھی حاصل کر رہی ہے ۔بظاہر امریکہ بھارت اقتصادی تنازعات چل رہے ہیں لیکن ملڑے کی مالی معاونت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھارت ہی ہے ۔سات سے دس مئی کے دوران پاک بھارت جھڑپوں میں ملڑا بھارت کے ساتھ کھڑا تھا ۔ایران اسرائیل جنگ کے دوران ملڑے نے ایران کو تقویت پہنچانے کے بعض اقدامات کی پاکستانی درخواستوں کو مسترد کیا اور پاکستان کو متبادل راستے اختیار کرنا پڑے ۔ایران اور پاکستان میں ایک خاموش مفاہمت اسی وجہ سے ہوئی اور دونوں ملک اسی وجہ سے افغانڈوز کو چن چن کر واپس بھیج رہے ہیں۔ملڑا بلیک میل کرنے چلا تھا اب ستر اسی لاکھ مہاجرین کی واپسی کا بوجھ برداشت کرے ۔نئی افغان حکومت آئے گی اور اسے ایران پاکستان سے واپس آنے والے تقریبآ اسی لاکھ افغانوں کا بوجھ اٹھانے کیلئے چین ،پاکستان اور ایران مالی معاونت فراہم کریں گے جو یقینی طور پر امریکہ بھارت سے بہتر اور زیادہ ہو گی ۔

57 روپیہ تولہ سے 4لاکھ 3 ہزار روپیہ تولہ تک سونے کی قدر کا سفر۔ جو اس پیلی دھات نے 1947 سے اب 2025 تک طے کیا۔ In 1947 ~ 1 Tola Gold = PKR 57In 1952 ~ 1 Tola Gold = PKR 87In 1953 ~ 1 Tola Gold = PKR 91In 1954 ~ 1 Tola Gold = PKR 97In 1955 ~ 1 Tola Gold = PKR 103In 1956 ~ 1 Tola Gold = PKR 107In 1957 ~ 1 Tola Gold = PKR 111In 1958 ~ 1 Tola Gold = PKR 114In 1959 ~ 1 Tola Gold = PKR 133In 1960 ~ 1 Tola Gold = PKR 131In 1961 ~ 1 Tola Gold = PKR 135In 1962 ~ 1 Tola Gold = PKR 135In 1963 ~ 1 Tola Gold = PKR 124In 1964 ~ 1 Tola Gold = PKR 132In 1965 ~ 1 Tola Gold = PKR 123In 1966 ~ 1 Tola Gold = PKR 134In 1967 ~ 1 Tola Gold = PKR 138In 1968 ~ 1 Tola Gold = PKR 138In 1969 ~ 1 Tola Gold = PKR 176In 1970 ~ 1 Tola Gold = PKR 154In 1971 ~ 1 Tola Gold = PKR 177In 1972 ~ 1 Tola Gold = PKR 246In 1973 ~ 1 Tola Gold = PKR 432In 1974 ~ 1 Tola Gold = PKR 562In 1975 ~ 1 Tola Gold = PKR 714In 1976 ~ 1 Tola Gold = PKR 535In 1977 ~ 1 Tola Gold = PKR 597In 1978 ~ 1 Tola Gold = PKR 714In 1979 ~ 1 Tola Gold = PKR 1,230In 1980 ~ 1 Tola Gold = PKR 2,250In 1981 ~ 1 Tola Gold = PKR 1,920In 1982 ~ 1 Tola Gold = PKR 1,636In 1983 ~ 1 Tola Gold = PKR 2,244In 1984 ~ 1 Tola Gold = PKR 2,156In 1985 ~ 1 Tola Gold = PKR 2,123In 1986 ~ 1 Tola Gold = PKR 2,478In 1987 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,300In 1988 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,478In 1989 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,275In 1990 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,320In 1991 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,705In 1992 ~ 1 Tola Gold = PKR 3,345In 1993 ~ 1 Tola Gold = PKR 4,127In 1994 ~ 1 Tola Gold = PKR 4,700In 1995 ~ 1 Tola Gold = PKR 4,722In 1996 ~ 1 Tola Gold = PKR 5,500In 1997 ~ 1 Tola Gold = PKR 5,100In 1998 ~ 1 Tola Gold = PKR 6,150In 1999 ~ 1 Tola Gold = PKR 6,100In 2000 ~ 1 Tola Gold = PKR 6,150In 2001 ~ 1 Tola Gold = PKR 6,550In 2002 ~ 1 Tola Gold = PKR 7,200In 2003 ~ 1 Tola Gold = PKR 8,300In 2004 ~ 1 Tola Gold = PKR 9,500In 2005 ~ 1 Tola Gold = PKR 10,600In 2006 ~ 1 Tola Gold = PKR 13,500In 2007 ~ 1 Tola Gold = PKR 15,200In 2008 ~ 1 Tola Gold = PKR 23,500In 2009 ~ 1 Tola Gold = PKR 29,500In 2010 ~ 1 Tola Gold = PKR 38,500In 2011 ~ 1 Tola Gold = PKR 54,700In 2012 ~ 1 Tola Gold = PKR 63,300In 2013 ~ 1 Tola Gold = PKR 49,500In 2014 ~ 1 Tola Gold = PKR 47,000In 2015 ~ 1 Tola Gold = PKR 44,450In 2016 ~ 1 Tola Gold = PKR 49,800In 2017 ~ 1 Tola Gold = PKR 56,200In 2018 ~ 1 Tola Gold = PKR 68,000In 2019 ~ 1 Tola Gold = PKR 70,700In 2020~ 1 Tola Gold = PKR 113,700In 2021~ 1 Tola Gold = PKR 125,900In 2022 ~ 1 Tola Gold = PKR 127,000In 2023 ~ 1 Tola Gold = PKR 206,500In 2024 ~ 1 Tola Gold = PKR 252,500In 2025 as of 20 Feb – PKR 308,000In 2025 as of 23 Apr – PKR 371,000In 2025 as of 23 Sep – PKR 403000

پنجاب سے پیپلز پارٹی کا خاتمہ ۔اظہر سیدملک گیر وفاق کی سیاست کرنے والی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کا پنجاب میں زوال سو فیصد مالکوں کے اقدامات اور پراپیگنڈہ کی طاقت سے ہوا ہے ۔بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو ولن بنا کر مسلم لیگ ن کو ہیرو بنایا گیا بالکل اسی طرح جس طرح 2018 کے الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ولن بنا کر تحریک انصاف کو ہیرو بنایا گیا تھا

۔پہلی جلا وطنی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کیلئے لاہور کا انتخاب کیا تھا ۔دوسری جلا وطنی کے بعد کراچی کا انتخاب اس بات کی دلیل تھی پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی کمزوری تسلیم کر چکی ہے ۔پنجاب میں چاروں صوبوں کی زنجیر کا کمزور ہونا جنرل ضیا الحق کے جہنم واصل ہونے کے بعد پہلے انتخابات میں مالکوں کے ردعمل سے شروع ہوا تھا۔پہلے پنجاب کی صوبائی حکومت بنانے سے روکا گیا پھر مرکز میں شرائط کے ساتھ حکومت دی گئی ساتھ ہی آصف علی زرداری کو ہدف بنا کر پیپلز پارٹی کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔اس الیکشن کے بعد سے جنرل مشرف کے مارشل لا تک کا دور پیپلز پارٹی کیلئے ایک المیہ ڈرامہ کا ایکٹ ہے۔کبھی سوئس بینکوں میں ہیروں کے ہار اور کبھی سرے محل اور کبھی مسٹر ٹن پرسنٹ کا بہت بڑا پراپیگنڈہ پنجاب میں مسلسل رائے عامہ متاثر کرتا رہا۔

بدبخت حرامزادے ججوں کی مدد اور معاونت کے ساتھ ساتھ ہر انتخابات میں ووٹ چوری اسی طرح پیپلز پارٹی کو کمزور کرتی رہی جس طرح 2018 میں نواز شریف کا ووٹ چوری ہوا یا پھر موجودہ الیکشن میں نوسر باز کا ووٹ چوری کیا گیا۔جنرل مشرف کے الیکشن میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی تشکیل گویا اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ تھا ۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھلے پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت سازی کاموقع دیا گیا اور پنجاب میں پارٹی نے درکار سیٹیں بھی جیت لیں لیکن پیپلز پارٹی اپناحقیقی ووٹ بینک کھو بیٹھی تھی

۔مالکوں کی طرف سے داد رسی کے عمل نے پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت تو دے دی لیکن پنجاب میں جس بندوبست کے زریعے قومی اسمبلی کی سیٹیں دی گئیں اسی بندوبست سے صوبائی اسمبلی کی سیٹیں نہیں دی گئیں ۔اس کا دوسرا مطلب یہ تھا مالکوں کو پیپلز پارٹی اعتماد نہیں تھا ۔وقتی طور پر حکومت بنانے کا موقع تو دے دیا لیکن میثاق جمہوریت کے جرم کی وجہ سے گملے میں مستقبل کیلئے نوسر باز آگا لیا گیا تھا۔

نوسر باز کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد جمہوریت کی بحالی اور مالکوں کی پسپائی ممکن تھی لیکن سیاستدان ساحل پر آکر ڈوب گئے۔آصف علی زرداری اور نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد کا بھاری پتھر اٹھا کر ایک طرف مالکوں کی طاقت تسلیم کر لی دوسری طرف نوسر باز کو اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کا محفوظ راستہ بھی دے دیا۔اب کھیل سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔اب بندوبست ہی ہو گا جمہوریت کو اگلے وقتوں کیلئے بھول جائیں۔ہائی برڈ نظام کا تجربہ جاری رہے گا کہ اس کے ثمرات ریاست کیلئے بہتر ثابت ہو رہے ہیں۔پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں شائد قومی اسمبلی کی پنجاب سے درکار سیٹیں حاصل کر لے لیکن یہ بندوبست ہو گا ووٹ بینک نہیں

۔بلاول بھٹو کو بطور وزیراعظم شائد اگلا موقع مل جائے لیکن یہ ہائی برڈ نظام کا تسلسل ہو گا جمہوریت نہیں ۔جس الیکشن میں دشمن قوتوں کو شکست دے کر نوسر باز کو مسلط کیا گیا تھا پیپلز پارٹی کا ووٹ مسلسل چوری ہوا کہ پارٹی کاہارڈ کور ووٹر بھی مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گیا۔اب پنجاب میں پیپلز پارٹی ختم ہو چکی ہے

۔متبادل ووٹ بینک مذہبی جماعتوں،تحریک انصاف کا ہے پیپلز پارٹی دیگ کا چنا ہے جو بھاڑ پھونک سکتا ہے اور بس۔نوسر باز کے کرم کریا کے بعد اسکا ووٹ بینک کس طرف جائے گا اس کیلئے وقت کا انتظار کرنا ہو گا ۔

🚨 *مودی حکومت کے خلاف شدید مظاہرے، پولیس جھڑپوں میں 4 ہلاک، درجنوں زخمی*بھارت کے شمالی علاقے لداخ میں مودی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شدت اختیار کر گئی۔خبرایجنسی کے مطابق لداخ میں ہزاروں افراد سڑکوں پرنکل آئے اوروفاقی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں کم ازکم 4 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔پولیس نے مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے لاٹھی چارج اورآنسو گیس کا استعمال کیا، جس پرحالات مزید کشیدہ ہو گئے۔مشتعل مظاہرین نے بی جے پی کے مقامی دفتر اور پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی جس کے بعد علاقے میں ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو دوبارہ مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے اورعوام کوسیاسی ومعاشی حقوق فراہم کیے جائیں۔

مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے لداخ کے عوام کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جس پر عوام کا صبرجواب دے گیا ہے۔کشیدگی کے بعد علاقے میں اضافی پولیس اورنیم فوجی دستے تعینات کردیئے گئے ہیں جبکہ صورت حال پرقابو پانے کے لیے مختلف مقامات پرکرفیونما پابندیاں نافذ کردی گئی ہیں۔