تازہ تر ین

سندھی قوم کے خلاف بکواس کرنے والہ ن لیگ کا لونڈا لاپاڑہ برطرف سیکرٹری اطلاعات حکومت پاکستان امبرین جان جو مستقبل کی چئیرمین پیمرا ھے فوری طور پر برطرف کرتے ھوے 26 لاکھ روپے کی مراعات واپس لینے کا حکم بھی جاری کیا۔۔انفارمیشین اور خبر کی خصوصیت یہ ھے کہ جب حالات موافق نہ ھوں تو یہ ھوائی بگولہ بن کر گھومتی ہیں-کوئٹہ ۔ بی این پی کے رہنما سرداراخترجان مینگل کی گاڈی پر بم دھماکہ،درجنوں کارکن شہید زخمی۔۔۔۔اسرائیلی وزیر خارجہ پر ایرانی وزیر خارجہ کا حملہ لتر پریڈ۔۔ایران کے ھاتھوں پاکستان کو عبرت ناک شکست۔دو گیندوں پر دو وکٹیں ، راشد خان نے میچ پاکستان کے ہاتھ سے چھین لیا۔۔۔۔منظور پشتین کے افغان بر والوں نے عورتوں کی میڈیکل تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اب افغان ماؤں کو کوئی پیچیدگی ہوئی نئے منظور پشتین اور انکی مائیں دوران حمل ہی مر جایا کریں گی ۔۔خطرے کی گھنٹی اور خطرناک گونج۔۔اھم ترین ملاقات شیروانی اور بادبان نیوز نیا پنڈوارا بکس۔۔شیروانی اور بادبان نیوز نیا پنڈوارا بکس۔۔چپڑاسی سے وزیر اعظم تک کرپشن کے تبوت۔*عید میلادالنبی کے موقع پر ملک بھر میں 6 ستمبر بروز ہفتہ عام تعطیل ہو گی، نوٹیفیکیشن جاری*سعودی اور عراقی کمپنیوں نے بھارتی ریفائنری کو تیل کی فروخت روک دی*۔۔اسلام آباد ایئرپورٹ کا انتظام امارات کے سپرد۔۔پی ٹی آئی کے 6 اراکین قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ سے بھی مستعفی ہوگئے۔۔ تفصیلات بادبان ٹی وی پر

ڈبو کے شہر کو یک دم اتر گیا پانی ———————————————شاہد اقبال کامران —————————ہماری ریاست ماں جیسی نہیں ، ورنہ کوئی ماں اپنے بچوں کو پانی میں غرق نہیں ہونے دیتی ۔ ہماری ریاست باپ جیسی بھی نہیں کہ۔جو اپنے بچوں کا کفیل ہو ۔ہماری ریاست ،جیسا کہ بتایا جاتا ہے کوئی نظریاتی ریاست ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کسی نظریے کی چادر میں چھپ کر ریاست اپنی پرستش کروانا چاہتی ہے اور جبرا ایسا کروا بھی رہی ہے ۔ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں بت پرستی مکمل طور پر حرام ہے۔کسی بھی قسم کے بت کو توڑنا ، پاش پاش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔دوسری بات یہ کہ چونکہ حکومت کا نظام یہاں ناکام و نامراد ہو چکا ہے اس لیے معاشرتی نظم و نسق کے دیگر متبادلات پر غور وفکر کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

حالیہ سیلاب کے دوران بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جو تباہی مچی ،اور جس طرح سے ہمارے تنخواہ دار حکمرانوں نے روپوشی اختیار کی ہے ۔اسے عامتہ الناس کو یاد رکھنا چاہئیے۔سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔لوگوں کو چاہئیے کہ انتظار کرنے کی بجائے انتظامیہ کے قلعہ نما محلات پر قبضہ کرلیں۔اور اپنی تقدیر کے مالک خود بنیں۔جب سے ملک کے بیشتر علاقوں میں تند و تیز بارشوں اور بھارت کی طرف سے خاموش دریاؤں میں چھوڑے پانی کی وجہ سے سیلاب بلاخیز نے تباہی مچا رکھی ہے ،ملت پاکستانیہ کو شرم اور حیا کی طرف متوجہ کرنے والے سیالکوٹ کے خواجہ آصف بالکل غائب ہیں ۔شرلی بے بنیاد کی تحقیق کے مطابق جس وزیر کو وفاقی کابینہ میں بالکل فارغ رکھنا ہو

،اسے وزیر دفاع بنا دیا جاتا ہے ۔شرلی کا اصرار ہے کہ اس وزرات کی املا غلط لکھی جاتی ہے ،اس کے نزدیک اصل املا “وزیر دفع” ہے ،جو غلطی سے دفاع قیاس کر لی گئی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ دفاع سے متعلق معاملات دفاع والے خود ہی دیکھ لیتے ہیں ، وہ اپنا سیکرٹری دفاع مقرر کر کے اسے کھیلنے کے لیے ایک وفاقی وزیر دے دیتے ہیں تاکہ دستخط کرنے کے کام آسکے۔خواجہ آصف جونسا جونسا کی تکرار کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر طنز کے بے تدبیر تیر چلانے میں بڑے ماہر ہیں

۔وہ دوسرے سیاستدانوں سے ہر اس خوبی کی توقع رکھتے ہیں ، جو خود ان کے اپنے اندر نہیں ہوتی۔قوم کو شرم و حیا کی طرف متوجہ کرنے والے خواجہ آصف اس وقت خود اپنے وزیراعظم شہباز شریف اور اپنی حکومت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ وہ ملک کے سیاسی منظر سے بالکل غائب ہیں ۔بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے زیریں علاقے پانی کی غارت گری کا شکار ہیں ۔صوبائی حکومت کی غفلت شعاری ایک طرف ،لیکن ہماری ازخود انقلابی وفاقی حکومت اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہی؟شہبازشریف نے شروع شروع میں اپنی انگلی لہرا لہرا کر انقلابی باتیں کرنا شروع کی تھیں

۔پھر بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ایسے ایسے نادر طریقے اور دردناک سلیقے سے بھیک مانگی گئی کہ اب پاکستانی بھکاریوں کا یہ منشور بن گیا ہے کہ “آپ سمجھے ہیں کہ میں بھیک مانگنے آیا ہوں۔ بس ایک بار آپ ہماری مدد کر دیں۔۔۔۔ ۔۔۔” یہ تو سچ ہے کہ مصیبت بتا کر نہیں آتی ،لیکن موسمی پیشگوئی اب سائنس بن چکی ہے ۔سیلاب تو بتا کر ہی آیا ہے ، بارش کا بھی پیشگی اندازہ کر لیا جاتا ہے ۔اس کے بعد اس کے اثرات کو قابو کرنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے ۔تحصیل دار سے لے کر کمشنر تک ،اورکمشنر سے لے کر چیف سیکرٹری اور پھر وزراء اور وزیر اعلی تک سب کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔لیکن پنجاب کے اداکار وزیر اعلی پرویز الٰہی اپنی سیاسی مصروفیات میں اس قدر الجھے بیٹھے ہیں کہ انہیں ابھی تک سیلاب زدگان کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ملی۔

شائد ان کا خیال ہے کہ ان کی وزارت اعلی تو پی ٹی آئی کے ووٹوں پر کھڑی ہے ، جنوبی پنجاب کے غریب سرائیکیوں کے ووٹ پر تو نہیں،لہذا انہوں نے تونسہ یا فاضل پور یا کوہ سلیمان کے اطراف کا دورہ کرنے کی بجائے بنی گالہ جا کر عمران خان کے دربار میں حاضری دینا مناسب سمجھا۔سنا ہے کہ انہوں نے اپنے شہر گجرات کے لیے اربوں کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کیا ہے۔شکر ہے گجرات جنوبی پنجاب میں واقع نہیں ،ورنہ اس فنڈ سے سرائیکی بولنے والے غریب لوگوں کا بھی کچھ بھلا ہو سکتا تھا۔

ستم ظریف کا موقف ہے کہ پاکستان کے مرکزی سیاست دان ،چاہے وہ صوبائی حکومت میں ہوں ،چاہے وفاقی حکومت میں ،وہ جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو تو نقد ادائیگی کر کے بازار سے ہی خریدنا ہے ۔تو پھر ان کے ووٹروں کی دلداری کرنے کیا ضرورت ہے۔ وہاں کا سردار ،وڈیرا ،خان ، پیر اور سجادہ نشین اصل بیماریاں ہیں ،جو سیلاب گزر جانے کے بعد بھی موجود اور ناقابل علاج رہیں گی ۔میں نے ستم ظریف کو سمجھایا ہے کہ جنوبی پنجاب کو ریاست پاکستان کا ایک حصہ سمجھ کر سوچنے کی مشق کرنی ہو گی۔بالکل اس طرح جیسے بلوچستان کو پاکستان کا ایک با عزت حصہ ماننا پڑے گا

۔میں نے اسے بتایا کہ سیلاب کی بے رحم تباہ کاری کا مسلہ سیاسی نہیں انسانی المیہ ہے ۔لیکن افسوس اور عبرت کا مقام یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس باب میں مکمل خاموشی اختیار کیے بیٹھیں ہیں۔اب جبکہ ان گنت اموات اور نقصان ہو چکا ہے تو خبر آئی ہے کہ وزیراعظم اورآرمی چیف نے از راہ کرم ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کر کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔آپ سوچیے جن لوگوں نے اس تباہی سے پہلے منصوبہ بندی کرنی تھی ، وہ بعداز خرابی بسیار اب ایک دوسرے کو ٹیلی فون کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے

۔بس یہی المیہ ہے کہ ابھی تک وزیراعظم “ضرورت ہے” ہی کی تکرار کیے جارہے ہیں۔وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ ضرورت کون پوری کرے گا۔سنا ہے کہ وزیراعظم نے سپہ سالار جنرل قمر جاویدباجوہ کے علاؤہ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اخترنواز سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے

۔یہ جو نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے جنرل اختر نواز نامی چیئرمین صاحب ہیں ،نہیں تو فوراً واپس اپنی اصل ڈیوٹی پر اس رپورٹ کے ساتھ بھیج دینا چاہئیے کہ یہ موصوف اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں

۔لیکن ہمارے وزیراعظم نے کئی دن تک اپنے سینے میں سانس کی مشق کرنے کے بعد ان موصوف سے بات کرنے کی ہمت کی۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو سندھ میں بارشوں اور سیلاب کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔یہ بھی اللہ کا شکر ہے ورنہ وزیراعظم کو سندھ میں سیلاب کی صورتحال کا کس طرح سے پتہ چلتا۔اس پوری گفتگو میں جنوبی پنجاب کے مظلوم اور غرقاب علاقوں کا اشارتاً بھی ذکر نہیں آیا۔ہاں مگر شہباز شریف نے پھر وہی کیا ،جو انہیں کرنا آتا ہے ۔یعنی ریاست کے پیسوں سے اخباروں میں اشتہارات چھپوا کر کارروائی ڈالنا۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب ! یہ تصویری اور اشتہاری ڈرامے بند کریں۔بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور سندھ کے بہت سے علاقے بدترین سیلاب کی زد میں ہیں۔

اور آپ کروڑوں روپے کے اشتہارات کی رشوت اخبارات کو دے رہے ہیں۔ذرا کوہ سلیمان کے اطراف پھنسے ہوئے مجبور لوگوں کی خبر لیں۔آپ پرانے ڈراموں کی تصویریں لگا کر داد سمیٹنا چاہتے ہیں۔بلائیں ذرا خواجہ آصف کو جو قوم کو بتایا کرتا تھا کہ؛ کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے۔میں اس سے پوچھوں گا کہ اتنی اہم بات شہباز شریف کو کیوں نہیں بتائی؟ شاعر باکمال فیصل عجمی کے شعر یاد آرہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ؛زمیں کی نوحہ گری سن کے ڈر گیا پانیڈبو کے شہر کو یک دم اتر گیا پانیمیں ایک بار پکارا کوئی بچاؤمجھےپھر اس کے بعد میرے منہ میں بھر گیا پانیجو ڈوب گئے ، وہ تلاش مرگ میں تھےچلو کسی پہ تو احسان کر گیا پانی —————————————–

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Baadban Tv. All Rights Reserved