🚨 جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ ، 9 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 7 زخمی ہوگئے 🚨* پاکستان تحریک انصاف کا اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگانے کا فیصلہ**اراکین قومی اسمبلی و سینٹ اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگائیں گے ، بیرسٹر گوہر*
مُحَمَّد رضوان کو پھر کپتانی دینے پر محسن نقوی نے بول دیا اور رضوان میں نے تین شرط پر کپتانی لونگا✌🏻☝🏻1مجھے یہ انٹینٹ اور ماڈرن ڈے والے پلیرز نہیں چاہیےمیں ٹیم خود سلیکٹ کروگا✊🏻2مجھے ولڈ کپ تک کپتانی دی جاۓ3عاقب جاوید مجھ سے کچھ بھی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا میں خود اپنی ٹیم کا اچھا برا سوچوں گا🔥

آزاد کشمیر میں تحریک ۔ اظہر سیدآزاد کشمیر میں خودمختار کشمیر کے حامی شائد مل جائیں بھارت کے حامی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی را آپریشن سیندور کی ناکامی کے بعد آزاد کشمیر میں بدامنی اور شورش کیلئے پیسہ پانی کیلئے بہائے گی لیکن را سے فنڈز لینے والوں کیلئے کھلے عام بھارت کی وکالت کرنا بہت مشکل ہو گا ۔طریقہ یہی ہے جو اپنایا جا رہا ہے ۔چارٹر آف ڈیمانڈ پر تحریک شروع ہو ۔حکومت ڈنڈا استمال کرے اور پھر اس کا ردعمل پاکستان اور کشمیریوں میں نفرت کا آغاز بنے۔حکومت اس معاملے کو احتیاط سے نپٹائے۔عام کشمیری پاکستان سے محبت اور بھارت سے نفرت کرتا ہے ۔چند لیڈروں کی لگائی آگ میں بھارتیوں کو ہاتھ سینکنے کاموقع ہر گز نہ دیا جائے اور عام کشمیری کی پاکستان سے محبت پر اعتماد کیا جائے۔جن شر پسندوں نے آج سیکورٹی فورسز کے جوانوں پر گولی چلائی یا اغوا کیا ان کے ہنڈلر کو پکڑا جائے ۔عام کشمیری جو ہجوم میں شامل تھے یا گولی چلانے والوں کے آس پاس تھے وہ ہجوم کا حصہ تھے اور ہجوم کبھی بھی مجرم نہیں ہوتا۔ڈرامہ کے اصل ڈائریکٹر اسٹیج کے پیچھے ہوتے ہیں۔حکومتی کریک ڈاؤن عام کشمیریوں کے خلاف ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔مطالبات سارے جائز ہیں ۔عام کشمیری کو نہیں پتہ کونسے مطالبات پورے ہو سکتے ہیں اور کون سے نہیں یا معیشت کے کیا حالات ہیں۔یہ معاملہ سختی سے نہیں بلکہ نرمی اور احتیاط سے نپٹانے کی ضرورت ہے۔

بریکنگ: یمن میں 24 پاکستانی عملے والے ایل پی جی ٹینکر پر اسرائیلی ڈرون حملہ، خطے میں سنگین جغرافیائی سیاسی سوالات کھڑےاسلام آباد — ایک نہایت ڈرامائی اور تشویشناک انکشاف میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ہفتے کے روز (ترک میڈیا کے مطابق) تصدیق کی کہ اس ماہ کے آغاز میں یمن کی بندرگاہ راس العیسیٰ پر لنگر انداز ایک مائع قدرتی گیس (ایل پی جی) ٹینکر کو اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ جہاز پر 27 افراد سوار تھے، جن میں 24 پاکستانی شامل تھے۔حملے کے نتیجے میں جہاز کے ایک ٹینک میں دھماکہ ہوا جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور عملے کو اپنی جان بچانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ اگرچہ آگ پر قابو پا لیا گیا، لیکن صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب حوثی کشتیاں جہاز کے قریب آئیں اور عملے کو یرغمال بنا لیا۔ کئی دن کی غیر یقینی کیفیت کے بعد حوثیوں نے بالآخر ٹینکر اور اس کے عملے کو رہا کر دیا، جو اب یمنی پانیوں سے باہر ہیں۔یرغمال بننے والوں میں جہاز کے کپتان مختار اکبر بھی شامل تھے، جو اپنے پاکستانی ساتھی ملاحوں، دو سری لنکن اور ایک نیپالی کے ساتھ پھنس گئے تھے۔ وزیرِ داخلہ نقوی نے پاکستان کے سول اور سیکیورٹی اداروں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے “مایوسی کی گھڑی میں غیر معمولی حالات کے تحت پاکستانی شہریوں کی محفوظ رہائی” ممکن بنائی۔اس انکشاف نے علاقائی میڈیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ جہاں پاکستان کا مرکزی میڈیا اس معاملے پر خاموش ہے، وہیں مشرقِ وسطیٰ، ترکی اور بھارت کے ذرائع ابلاغ اس خبر کو بھرپور انداز میں اجاگر کر رہے ہیں اور اسے اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کے تناظر میں ایک نہایت خطرناک موڑ قرار دے رہے ہیں، جہاں اکتوبر 2023 سے اب تک 65 ہزار 500 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔یہ حملہ نہ صرف بحیرہ احمر کے غیر مستحکم خطے کے لیے ایک الارم ہے بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مستقبل کے دفاعی تعلقات پر بھی گہرے سوالات کھڑا کرتا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ — اور اس کے بعد حوثیوں کی مداخلت — اسلام آباد کی اُس نازک توازن کی پالیسی کو مشکل بنا سکتی ہے جو وہ ریاض، تہران اور تل ابیب کے درمیان قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔“یہ محض ایک سمندری حادثہ نہیں ہے،” ایک سینئر علاقائی مبصر نے کہا۔ “یہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی دفاعی ذمہ داریاں، خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ، دنیا کے سب سے آتش فشاں جیسے سیاسی منظرنامے میں پرکھی جائیں گی۔”جوں جوں کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور بیانیے تقسیم ہو رہے ہیں، ایک حقیقت بالکل واضح ہے: عام پاکستانی ملاحوں سے بھرا ایک جہاز مشرقِ وسطیٰ کی بڑی جنگوں میں الجھ چکا ہے — وہ جنگیں جن کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے

نااہلی کی قیمت : انکار کا خمیازہدنیا کی جدید تاریخ میں بہت کم اقوام ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ہی صلاحیت اور امکانات کو اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ ضائع کیا ہو جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس ملک کی جمہوری کاوشیں محض بیرونی سازشوں یا خطے کی مداخلت سے نہیں ڈگمگائیں بلکہ اصل وجہ اپنی ہی سیاسی قیادت کی ہمہ گیر نااہلی اور مسلسل ناپختگی ہے۔ پاکستان کے سیاسی انتشار کے مرکز میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے: جنہیں آئین کی حفاظت اور جمہوری ڈھانچے کی پرورش کا امین بنایا گیا، وہ ہمیشہ بصیرت، ضبط اور ذہنی صلاحیت سے محروم نکلے۔ یہی کمی ایک ایسا مکروہ شیطانی چکر بنا چکی ہے جو بار بار لوٹ آتا ہے۔ جب بھی سیاسی قیادت لڑکھڑاتی ہے تو وہ فوجی قیادت کو مدد کے لیے پکارتی ہے، کبھی براہِ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں۔ یہ پکار قومی مفاد کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی مصلحت، سیاسی عدمِ تحفظ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے زیرِ اثر کی جاتی ہے۔ یوں سیاست دانوں نے فوج کو ریاستی نظم کا شراکت دار نہیں بنایا بلکہ اپنی ناکامیوں کا سہارا بنا دیا، اور یوں فوج کو ان معاملات میں گھسیٹا جہاں بنیادی طور پر عوامی نمائندوں کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ یہی تسلسل بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ سیاسی طبقہ اپنی ہی انتخابی نشستوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو پورے نظام کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ جو سیاست دان دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے، جو رعایت اور سفارش کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے، اور جو آئین کی حدود اور قانون کی حکمرانی پر قائم نہیں رہ سکتے، وہ جمہوریت کے امین کیسے بن سکتے ہیں؟ جو اپنی سیاسی ساکھ کو سہارا نہیں دے سکتے، وہ پورے نظام کی ساکھ کے محافظ نہیں بن سکتے۔ یہ المیہ حالیہ مہینوں میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ اور امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی صلاحیت کو بیوروکریسی میں نہیں بلکہ فوج میں دیکھتی ہے۔ ان اہم مواقع پر پاکستان کی نمائندگی وزراء یا تجربہ کار بیوروکریٹس نے نہیں کی بلکہ وزیرِ اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کھڑے تھے۔ مخالف عناصر نے اسے فوج کے “شہری آزادیوں پر قبضہ” اور “آئینی حدود سے تجاوز” کے طور پر پیش کیا، مگر درحقیقت یہ زیادہ تلخ حقیقت کی عکاسی تھی: دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی اصل پیشہ ورانہ صلاحیت کہاں ہے۔ اور وہ پیشہ ورانہ صلاح عوامی قیادت میں نہیں۔ یہ انحصار محض آج کا نہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اہم قومی و بین الاقوامی مذاکرات نے بارہا سول اداروں کی ناپختگی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ کشمیر تنازعہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دور ہوں یا غیر ملکی امداد کی شرائط، بڑے قومی منصوبوں کی نگرانی ہو یا مالیاتی بحران کا حل ہر جگہ سیاسی ناکامی نے ریاست کو کمزور کیا۔ پانی کے مذاکرات میں جماعت علی شاہ کا کردار، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی .آئی .اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا زوال، اور آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار کی سبکی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ سیاسی قیادت نے قومی مفاد کو بارہا اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس کے برعکس فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے اداروں جیسے امریکی محکمۂ خارجہ، برطانوی فارن آفس یا بین ا لاقوامی سلامتی کے دیگر اداروں کی سطح پر اپنی مہارت دکھا سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا سے مکالمے کی اصل نمائندہ اس لیے بنی کہ سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خلا کو پر کرنے کی ناگزیر صورت تھی۔ کچھ حلقے فوجی کردار کو براہِ راست غیر آئینی اور آمرانہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ تنقید اس منطقی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ فوجی مداخلت کسی خلا میں جنم نہیں لیتی بلکہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب سیاسی رہنما اپنی غفلت اور کمزوری سے بحران کو جنم دیتے ہیں تو پھر غیر سول ادارے مداخلت پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوج پر جمہوریت پر قبضہ کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قیادت نہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے، نہ آئین کی پاسداری کر سکتی ہے، اور نہ ہی ریاستی امور کی بنیادی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے، وہ کس منہ سے بالادستی کی دعوے دار بن سکتی ہے؟ اور عوام یا دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے؟ اس صورتِ حال کا حل بار بار کی مداخلت یا “سول بالادستی” کے اندھے نعرے نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی فکری، تنظیمی اور اخلاقی کمزوریوں کا اعتراف کرے۔ جب تک اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں ہو گا، کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہیں حقیقی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا، ایسا اتفاق جو وقتی جوڑ توڑ پر مبنی نہ ہو بلکہ ریاستی استحکام، قانون کی حکمرانی اور قومی ترجیحات پر پائیدار سمجھوتہ ہو۔ تبھی وہ ریاستی ذمہ داری سنبھالنے اور جمہوریت کے تحفظ کا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی پختگی سامنے نہیں آتی، سول بالادستی کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ بالادستی سے پہلے صلاحیت ضروری ہے۔ خودمختاری صرف نعروں اور تقریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی،

اس کے لیے بصیرت، ادارہ جاتی ضبط اور فکری طاقت درکار ہے۔ ان اوصاف کے بغیر پاکستان ہمیشہ اسی دائرے میں قید رہے گا: سیاسی قیادت ناکام، فوجی قیادت مداخلت کرتی ہوئی، اور ریاست معلق حیثیت میں جھولتی ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ انہوں نے بارہا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی، فوج کو وہاں گھسیٹا جہاں اس کا کام نہیں تھا، اور جمہوریت کو ایک سرکاری نوکریوں اور نوازشات کی منڈی میں بدل دیا۔ جب تک اس حقیقت کا اعتراف اور تدارک نہیں ہوتا، ریاست ایسے ہی خودساختہ بحرانوں میں پھنسی رہے گی، اور ہر نیا بحران پچھلے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اس سلسلے کی اگلی قسط ریاستی زوال کے ایک اور سنگین پہلو پر روشنی ڈالے گی: پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی۔ جس طرح سیاسی قیادت نے حکومت کو ترک کیا، اسی طرح عدلیہ نے بھی انصاف کو چھوڑ دیا۔ دونوں نے مل کر ریاست کو ایک نازک توازن پر لٹکا دیا ہے، جہاں نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی قانون۔ (جاری ہے)
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جانب سے ایشیا کپ فائنل کے بعد ٹویٹ انتہائی غیر سنجیدہ اور سستی حرکت ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم کو اس سطح پر نہیں آنا چاہیے تھا۔ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا ضروری ہے اور ہمارے وزیراعظم کو بھی خاموش رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ایسی حرکت منصب کی وقعت کم کرتی ہے۔بھارتی مؤرخ رام چندرا گہا

غزہ اتھارٹی کا صدرمیں خود ہوں گا،ٹونی بلیئررکن ہونگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپحماس نے امن معاہدہ قبول کرلیا تو تمام یرغمالی رہا کردیئے جائیں گے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپنئی حکومت فلسطینیوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہوگی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپاسرائیل اپنے یرغمالیوں کی فوری واپسی چاہتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ محض تماشائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر امن قائم کرنے والا کھلاڑی ہے، امریکی صدرجب دنیا صرف زبانی جمع خرچ کر رہی تھی، پاکستان نے عملاً غزہ کے امن کے لیے کردار ادا کیا، امریکی صدریہ پاکستان کا نیا عالمی مقام ہے کہ وہ دنیا بھر میں امن کا ضامن بن رہا ہے، امریکی صدر آج ان کی قیادت نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی امن قائم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، امریکی صدرپاکستان کی قیادت عالمی امن کے لیے ایک مثال بن چکی ہے، امریکی صدریہ پاکستان کی سفارتی اور عسکری قیادت کی تاریخی کامیابی ہے، امریکی صدردنیا اب پاکستان کو امن کے معمار کے طور پر دیکھ رہی ہے، امریکی صدر

🚩 کامیاب ہڑتال — عوامی فتح 🚩جوانیٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پرعزم ہڑتال نے تاریخ رقم کر دی!یہ کامیابی دراصل آزاد کشمیر کے باشعور عوام اور بہادر نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کا روشن استعارہ ہے۔ عوام کی آواز گونج اٹھی — ✊🔥 نوجوانوں کا عزم سرخرو ہوا ✊ کشمیر کا مستقبل جگمگا اٹھا — ✊سلام عقیدت اُن سب کو جنہوں نے اپنے حوصلے اور اتحاد سے یہ ثابت کر دیا کہ حق کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایم پی اے معین قریشی کو پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن نامزد کردیا گیا