تازہ تر ین

عدم اعتماد مجبوریوں کا سودا تھا اور کالک تھی سیاست نہیں۔۔جھوٹ جو سر چڑھ کر بولے۔۔صوبے کم ھونے کی وجہ سے نہیں 20 ھزار ارب روپے سالانہ کرپشن کی وجہ سے پاکستانی باھر جا رہا ہے۔۔ترکیہ اور ٹرمپ ملاقات سب کچھ کھویا کچھ نہ پایا۔۔ایک اور جنگ یمن میں بڑے پیمانے پر تباہی۔۔29 ستمبر کو 3 اھم ترین تبادلے۔انڈیا کو چاہ بہار پورٹ سے بھی دربدر کر دیا۔گوادر کی اہمیت میں کئ گنا اضافہ۔۔شہباز ڈپلومیسی۔۔کویت کے ولی عہد سے خوشگوار ملاقات۔۔پی آئی اے کا پاکستان سے کینیڈا کے لیے فضائی آپریشن عارضی طور پر بند۔۔جسٹس جھانگیر کیس سماعت کے لیے مقرر۔بلوچستان کا مسئلہ فوجی نھی سیاسی ھے۔۔یونان کی مختلف جیلوں میں پانچ سو سے زائد پاکستانی مختلف جرائم میں گرفتار ہو کر سزائیں کاٹ رہے ہیں۔۔ تفصیلات بادبان ٹی وی پر

70ء اور 80ء کی دہائی میں اس کی شہرت اور دولت کا اتنا چرچا تھا کہ شہزادیاں اور شہزادے اسکے ساتھ ایک کپ کافی پینا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے.وہ کینیا میں موجود اپنے وسیع و عریض فارم ہاوس میں چھٹیاں گزار رہا تھا ان کی کم سن بیٹی نے آئیسکریم اور چاکلیٹ کی خواہش کی انہوں نے اپنا ایک جہاز ال 747 بمع عملہ پیرس بھیجا جہاں سے آئیسکریم خریدنے کے بعد جنیوا سے چاکلیٹ لیکر اسی دن جہاز واپس کینیا پہنچا.اس کے ایک دن کا خرچہ 1 ملین ڈالرز تھا. لندن، پیرس، نیویارک، سڈنی سمیت دنیا کے 12 مہنگے ترین شہروں میں اس کے لگژری محلات تھے.انہیں عربی نسل گھوڑوں کا شوق تھا دنیا کے کئی ممالک میں ان کے خاص اصطبل تھے.اس کی دی ہوئی طلاق آج تک دنیا کی مہنگی ترین طلاق سمجھی جاتی ہے جب اس نے 875 ملین ڈالر اپنی امریکی بیوی کے منہ پر مارے اور اسے طلاق دی.اس کی ملکیت میں جو یاٹ تھی وہ اپنے دور کی سب سے بڑی یاٹ تھی،جو اس وقت بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھیاس یاٹ میں 4 ہیلی کاپٹر ہر وقت تیار رہتے جب کہ 610 افراد پر مشتمل خدام اور عملہ تھا،وہ یاٹ بعد میں ان سے برونائی کے سلطان نے خریدی ان سے ہوتے ہوئے ڈونلڈ ٹرامپ تک پہنچی،ٹرامپ نے 29 ملین ڈالر میں خریدی.ان کی اس یاٹ پر جیمز بانڈ سیریز کی فلموں سمیت کئی مشہور ہالی ووڈ فلمیں شوٹ کی گئیں.اپنی پچاسویں سالگرہ پر اس نے سپین کے ساحل پر دنیا کی مہنگی ترین پارٹی دی جس میں دنیا کی 400 معروف شخصیات نے 5 دن تک خوب مستی کی.امریکی صدر رچرڈ نکسن کی بیٹی کی ایک مسکراہٹ پر 60 ہزار پاونڈ مالیت کا طلائی ہار قربان کر دیا.اسلحے کا بہت بڑا سوداگر تھا ملکوں کے درمیان وہ اسلحے کی ڈیل اور معاہدے کراتا تھا،سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان انہوں نے 20 ارب ڈالر کے معاہدے کرائے.شراب اور شباب ان کی کمزوری تھی 4 جائز اور 8 ناجائز بیگمات ان کے عقد میں تھیں.یتیموں پر دست شفقت رکھنا،بیواوں کا خیال،مسکینوں کی مدد،سیلاب اور زلزلوں میں انسانی ہمدردی کے تحت فلاحی کام ان سب سے اسے سخت الرجی تھی ان کا یہ جملہ مشہور تھا کہ آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی کفالت کی ذمہ داری مجھے نہیں سونپ دی ہے.اسی کی دہائی میں وہ 40 ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مالک تھا.پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالی نے اس کی رسی کھینچ لی،اب تنزل و انحطاط کی طرف اس کا سفر شروع ہوا، اربوں ڈالرز کی مالیت کے ان کے ہیرے سمندر میں ڈوب گئے،کاروبار میں خسارے پہ خسارہ شروع ہوا،قرضے پہ قرضا چڑھا سب اثاثے فروخت کر ڈالے،ان کے دوست احباب،ان کے چاہنے والوں نے ان سے نظریں پھیر لی،یہ ایک لمبی مدت گمنامی کے پاتال میں چلا گیا،کسی کو خبر نہ تھی کہ کہاں ہے.پھر ایک دن یہ لندن میں کسی سعودی تاجر کو ملا ،ان کی حالت غیر ہوچکی تھی،اس تاجر سے کہا وطن واپس جانا چاہتا ہوں لیکن کرایہ نہیں،اس سعودی تاجر نے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خرید کر اسے دیا اور یہ جملہ کہا.اے عدنان ! اللہ تعالی نے فقیروں اور غریبوں پر مال خرچ کرنے اور صدقہ کا حکم دیا ہے یہ ٹکٹ بھی صدقہ ہے.اپنے دور کا یہ کھرپ پتی شخص صدقے کی ٹکٹ پر عام مسافروں کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر جدہ پہنچ گیا.اس عرب پتی تاجر کا نام عدنان خاشقجی تھا یہ عرب نژاد ترکی تھا،اس کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی ان کا والد شاہی طبیب تھا،یہ شخص ترکی میں قتل ہوئے صحافی جمال خاشقجی کا چچا تھا،2017 میں ان کا انتقال ہوا.میں نے جب اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کیا یقین کیجئے میں ہل کر رہ گیا اللہ تعالی کے انصاف پر میرا ایمان مزید پختہ ہوگیا،یاد رکھیں آپ جتنے بھی طاقت ور ہیں آپ جتنے بھی ثروت مند ہیں اللہ تعالی کے آگے بہت کمزور ہیں،اپنی دولت اور طاقت کو کبھی بغاوت کے لئے استعمال نہ کرنا اللہ تعالی کی پکڑ بڑی سخت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال نعمت سے ہمیشہ اللہ تعالی کی پناہ مانگتے تھے.اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك.

🚨 *بے نظیر انکم سپورٹ کو بے نظیر روزگار سکیم میں تبدیل کردیا جائے: رانا ثنااللہ* “`اچھا پروگرام ہے، ہم چاہتے ہیں اس پروگرام کو مزید مؤثر بنایا جائے،مشیر وزیر اعظم“` `وفاقی سطح پر تجویز ہے پروگرام کو صوبے بھی منظور کریں،انٹرویو 🚨 القادرکیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت کی اہم سماعت11بجےکورٹ روم1 میں ہوگی

ندیم افضل چن”بڑے بادشاہ“ہیںمولانا فضل الرحمن نے عدم اعتماد کی حقیقت بتا دی ہے،وہ گن پوائنٹ پر ہوئی تھیاور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے عدم اعتماد میں ووٹ ڈال رہے تھےاگر آپ ہاتھ نہ اٹھاتے تو کسی اور نے کچھ اور اٹھا دینا تھاعدم اعتماد مجبوریوں کا سودا تھا اور کالک تھی سیاست نہیں

صوبے کم ھونے کی وجہ نہیں بلکہ آپ جیسے لوگوں کی کرپشن بدیانتی اقربا پروری ٹیکس چوری فراڈ دھوکہ دہی کی وجہ سے باہر جارہی ھے صوبے زیادہ بنانے سے کیا فایدہ ھوگا مزید نوسرباز حکمران بنیں گے اور غریبوں کا مال لوٹیں گے صوبے بنانے کی بجاے ملک میں انصاف اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جاے تاکہ آپ جیسے گندے انڈوں کی کرپشن روکی جاے اور ظلم بھی

راولپنڈی ہولی فیملی ہسپتال کے باہر بی ار سی ریفریشمنٹ پر مضر صحت کھانا دیا جا رہا ہے اور لیبر سکن انفیکشن میں مبتلا ہونے کے باوجود پیپ زدہ زخمی ہاتھوں سے کھانے میں لوگوں میں بیماریاں تقسیم کر رہے ہے انتظامیہ خاموش تماشائی راولپنڈی () مشہور ترین ہولی فیملی ہسپتال کے گیٹ نمبر تین کے باہر بی ار سی ریفریشمنٹ پر کھلے عام بے خوف پیپ زدہ ذخمی ہاتھوں سے کباب بنا کر کوگوں کو کھلائے جارہے ہیں انتظامیہ خاموش تماشائی یا ملی بھگت سے لوکوں کو بیماریوں میں مبتلا کی جا رہی ہے ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ہمارے علم میں نہیں اور ٹال مٹول سے کام لیا

جبکہ بیمار شیف اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ کافی عرصے سے بیمار ہو اور کافی عرصہ سے اس ہوٹل پر بطور شیف پیپ زدہ زخمی ہاتھوں سے کباب بنا رہا ہو اور برتن دھو رہا ہوں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز کا خواب صحت مند صاف ستھرا پنجاب کے آڈر محکمہ فورڈ اتھارٹی اور ہوٹل مالکان نے ہوا میں آڑا دیے ہسپتال کے اندر کروڑوں روپے کی لاگت سے بیماریوں کا علاج کیا جارہا ہے اور ہسپتال سے باہر ہوٹل پر لوگوں سے پیسے بٹورنے کے باوجود بیماریاں تقسیم کی جا رہی ہے اہلیان علاقہ کا کہنا ہے اس معاملے پر فوری نوٹس لیا جائے اور لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جائے تاکہ وزیر اعلی پنجاب کا خواب صحت مندصاف ستھرا پنجاب پورا ہوسکے اہلیان علاقہ نے اپیل کی ہے تمام ہوٹلوں کی انسپکشن کی جائے اور ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے جائے ہوٹل پر جرمانہ یا سیل کیا جائے

فاروق بندیال، سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان اور اداکارہ شبنم۔۔۔۔۔۔فاروق بندیال کا تعلق خوشاب کے بندیال نامی گاوں کے بااثر زمین دار سے تھا، ان کا نام اداکارہ شبنم کے گینگ ریپ کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا۔فاروق بندیال اور اس کے 4 ساتھیوں نے 12 مئی 1978ء کو گلبرگ لاہور میں اداکارہ شبنم کے گھر واردات کی، اس کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر اس کے سامنے رات بھر شیطانی کھیل کھیلتے رہے، بعد ازاں نقدی و زیورات لے کر فرار ہو گئے۔ پانچوں ملزمان اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جن میں حاظر سروس بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ فاروق بندیال کا ماموں ایف کے بندیال٫ عطا بندیال کا والد تھا، اس وقت چیف سیکرٹری پنجاب تعینات تھا۔ واردات کے 5 روز بعد 17 مئی 1978ء کو لاہور پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاء نافذ تھا، فاروق بندیال کا ایک ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکریٹری داخلہ کے عہدے پر فائز تھا۔ اس نے فاروق اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی مگر، عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے بعد حکومت ان تمام کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہو گئی۔24 اکتوبر 1979ء کو عدالت نے فاروق بندیال اور اس کے 4 ساتھیوں کو سزاے موت سنائی تاہم بعد ازاں اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈال کر یہ سزا معاف کروا لی گئی۔ فاروق بندیال کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دی گئی۔ یہ جیل میں ‌موجود قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا کہ ” انہوں نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا”سعودی عرب کی سفارش پر اس کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی، شبنم اسے معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور خاوند کے ہمراہ بنگلہ دیش منتقل ہو گئیں۔—————-اس میں افسوس کی بات یہ تھی کہ اس مقدمے کی روداد عدالت عظمی نے 40 برس بعد افشاں کیں۔ ادکارہ شبنم کے وکیل نامور ماہر قانون ایس ایم ظفر تھے، جبکہ فاروق بندیال نے وکیل صفائی اس وقت کے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عاشق حسین بٹالوی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وکیل استغاثہ تھا جس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نامزد تھے۔اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرنے سے قبل بائیبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا: ” آپ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی؟” اداکارہ شبنم نے کہا: ” قومی, میں اپنی قومی زبان اردو میں بیان دوں گی”اداکارہ شبنم نے عدالت کے سامنے بیان دیا:” کئی روز سے ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور ہمیں قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے، میں اپنے اکلوتے بیٹے کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی”ایس ایم ظفر اپنی کتاب ” میرے مشہور مقدمے” میں لکھتے ہیں:” اداکارہ شبنم پر ہر قسم کا دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر، شبنم نے بہت حوصلے کے ساتھ ملزمان کی نشاندہی کی، جرح کا سامنا کیا۔ ملزمان میں فاروق بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر، جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے اور عدالت میں موجود تھے۔ شبنم سے پوچھا گیا:” کیا آپ ان ملزمان کو پہچانتی ہیں”

انہوں نے کہا: ” میں انہیں کیوں نہ پہچانوں گی جنہوں نے میری زندگی برباد کر دی:عدالت میں بیان دیتے شبنم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ واردات کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ اداکارہ زمرد کے گھر پر بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی جس کا گھر شبنم کے گھر کے قریب ہی تھا، اس میں ‌بھی یہی لوگ ملوث تھے، اداکارہ زمرد خوفزدہ ہو کر خاموش ہو گئی تھی مگر, شبنم نے مقدمے کی پیروی کی، تمام دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا کیا”اس وقت کے سینئر ترین صحافی جمیل چشتی، عباس اطہر کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ آزاد کے لئے کام کرتے تھے لکھا:” میں پہلا صحافی تھا جو واردات کے بعد شبنم کے گھر پہنچا، گھر کا سارا سامان بکھرا پڑا تھا، شبنم کی حالت غیر تھی، روبن گھوش کا ململ کا کرتا پھٹا ہوا تھا، شبنم اپنے بیٹے کو گود میں لئے رو رہی تھیں، بار بار بے ہوش ہو جاتیں۔ بیڈ روم میں پرفیوم کی بے پناہ خوشبو تھی جو ملزمان شبنم پر انڈیلتے تھے۔ میری موجودگی میں اداکار محمد علی شبنم کے گھر پہنچے، انتظامیہ اور پولیس سے رابطے کئے۔ ایک ملزم جمشید اکبر ساہی کا تعلق پولیس سے تھا، ملزمان پولیس کی نقل و حرکت سے واقف تھے۔ پولیس صبح 4:30 بجے تک گشت کیا کرتی تھی, ملزمان نے واردات کے بعد انتظار کیا، پولیس گشت ختم ہونے کے بعد اطمینان سے فرار ہو گئے۔ڈکیتی کے دوران جو زیورات لوٹے گئے ان میں اداکارہ کا ایک ہیروں کا قیمتی ہار بھی شامل تھا۔ وہ واردات کے تیسرے روز وہی ہار ایک بازاری عورت کو دینے بازار حسن گیا، پہلے سے موجود مخبروں کی نشاندہی پر دھر لیا گیا۔ مجرمان کے وکیل جس نے شبنم اور رابن گھوش سے معافی نامے پر دستخط کرواے تھے، کی سزاے موت 10 سال قید میں بدل دی گئی اس کے 2 سال بعد اسے رہا کر دیا گیا”

اگر دنیا کا ہر ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے—جو کہ بڑی حد تک درست ہے—تو وہ یہ پیسہ کس کو واجب الادا ہیں؟ آئیے اسے سمجھیں۔�دنیا کا کل قومی قرضہ تقریباً 100 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ریاستہائے متحدہ 36 ٹریلین ڈالر کے قرض کے ساتھ سب سے آگے ہے، جو عالمی کل کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ امریکی ڈالر، جو دنیا کی ریزرو کرنسی ہے، اس قرض کی بنیاد ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ قرض واقعی “قرض” ہے، کیونکہ یہ عالمی مالیات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پھر بھی، 60 ٹریلین ڈالر سے زیادہ قرض دیگر ممالک کے ذمے ہے۔ چین 15 ٹریلین ڈالر سے زیادہ، جاپان 11 ٹریلین ڈالر کے قریب، اور برطانیہ، جو چوتھے نمبر پر ہے، 3 ٹریلین ڈالر سے کچھ زیادہ کے ساتھ۔ فرانس، اٹلی، بھارت، جرمنی، کینیڈا، اور برازیل سرفہرست دس ممالک میں شامل ہیں۔ پاکستان کا قرضہ 87 بلین ڈالر ہے۔ چند ناکام ریاستوں کے علاوہ تقریباً ہر ملک کسی نہ کسی سطح پر قرض میں ہے۔‎قرض میں ہونا ممالک کے لیے اتنا عام کیوں ہے؟�قومی قرض صرف بوجھ نہیں—یہ دراصل وہ مالیاتی سپلائی ہے جو معیشتوں کو چلاتی ہے۔ یہ وہ کرنسی ہے جو ایک ملک اپنی معیشت کو چلانے کے لیے گردش میں لاتا ہے۔ لیکن اس قرض کا مالک کون ہے؟ یہ اصل سوال ہے، اور جواب حیران کن ہے۔‎آپ شاید سمجھیں کہ اس قرض کا بڑا حصہ غیر ملکی حکومتوں کے پاس ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ امریکہ میں قومی قرض کا صرف آٹھواں حصہ—تقریباً 4 ٹریلین ڈالر—غیر ملکی اداروں کے پاس ہے۔ برطانیہ میں یہ سولہواں حصہ ہے۔ فرانس اور جرمنی میں غیر ملکی ملکیت کچھ زیادہ، تقریباً 20 فیصد ہے، جسے یورپی سینٹرل بینک کے کردار نے پیچیدہ کر دیا ہے۔ جاپان، جس کا قرضہ اس کے جی ڈی پی کا 200 فیصد سے زیادہ ہے (جو دیگر ترقی یافتہ معیشتوں سے کہیں زیادہ ہے)، اس کی تقریباً کوئی غیر ملکی ملکیت نہیں؛ یہ زیادہ تر ملکی طور پر حکومت یا نجی افراد کے پاس ہے۔‎اس کا مطلب ہے کہ عالمی قرض کا 80 فیصد سے زیادہ نجی ملکیت میں ہے۔ اور یہ نجی مالکان کون ہیں؟ شاید آپ، میں، یا کوئی بھی جس کے پاس پنشن یا بچت ہے۔ پنشن فنڈز اور لائف انشورنس کمپنیاں قومی قرض کے بڑے حصص رکھتی ہیں

۔ برطانیہ میں، تقریباً 30 فیصد قومی قرض ان اداروں کے پاس ہے، جو حکومت کی کبھی نادہندگی نہ کرنے کی ضمانت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ نمونہ امریکہ اور یورپ میں بھی ہے۔ قومی قرض، جسے اکثر بحران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، دراصل نجی مالیاتی صنعت کی بنیاد اور نجی دولت کی اساس ہے۔‎یہاں بات واضح ہوتی ہے: اس دولت کا بڑا حصہ دنیا کی آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے کے ہاتھوں میں ہے۔ 8 ارب کی آبادی میں سے تقریباً 1 فیصد—تقریباً 80 ملین لوگ—عالمی اثاثوں، بشمول قومی قرض، کا غیر متناسب حصہ رکھتے ہیں۔ اس قرض پر سالانہ 3.2 ٹریلین ڈالر سود ادا کیا جاتا ہے، جو ان دولت مند افراد کے لیے فی کس تقریباً 40,000 ڈالر سالانہ ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا، باقی 99 فیصد کی اوسط آمدنی صرف 13,500 ڈالر سالانہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امیر ترین لوگ صرف سود سے تین گنا زیادہ کما سکتے ہیں جتنا کہ زیادہ تر لوگ اپنی محنت سے کماتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سادہ اور تخمینی ہیں، لیکن یہ نظام میں گہری ناانصافی کو اجاگر کرتے ہیں۔‎سیاستدان اکثر سرکاری قرض کو لاپرواہی قرار دیتے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مستقبل کی نسلوں پر بوجھ ڈالتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب حکومتیں قرض جاری کرتی ہیں، تو دولت مند اسے خریدتے ہیں، اور ہر سود کی ادائیگی کے ساتھ ان کی دولت بڑھتی ہے۔ وہ اس آمدنی کو دوبارہ لگاتے ہیں، مزید قرض خریدتے ہیں، جو دولت کو مزید مرتکز کرتا ہے اور عالمی عدم مساوات کو گہرا کرتا ہے۔‎تو کیا کیا جا سکتا ہے؟�سب سے پہلے، قومی قرض پر سود کی شرحیں کم کرنے کی ضرورت ہے—یہ بہت زیادہ ہیں۔ دوسرا، سود جیسے غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زیادہ منصفانہ ٹیکس لگایا جانا چاہیے، نہ کہ مزدوروں کی آمدنی سے کم شرح پر، جیسا کہ اب اکثر ہوتا ہے۔ تیسرا، ہمیں زیادہ ترقی پسند ٹیکس نظام کی ضرورت ہے تاکہ سب سے امیر لوگوں سے دولت واپس لی جا سکے اور حکومتیں ضروری خدمات کو فنڈ کر سکیں۔ آخر میں، ہمیں قرض کی ملکیت کو جمہوری بنانے پر غور کرنا چاہیے، جیسا کہ جاپان نے کچھ حد تک کیا ہے، اسے زیادہ عوامی کنٹرول میں لا کر۔ یہ 2008 کے مالیاتی بحران اور کووڈ کے دوران مقداراتی نرمی کے ذریعے ہوا، لیکن برطانیہ جیسے مقامات پر مقداراتی سختی اسے الٹ رہی ہے۔‎مختصراً، دنیا کے دولت مند قومی قرض کے مالک ہیں، اور وہ اس سے خوب منافع کماتے ہیں۔ قرض خود کوئی مسئلہ نہیں—یہ ہماری مالیاتی سپلائی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کنٹرول کس کے پاس ہے اور ان کے منافع پر کتنا ہلکا ٹیکس لگتا ہے۔ اس عدم توازن کو دور کرنا ایک منصفانہ دنیا بنانے کے لیے اہم ہے۔ یہ پیغام پھیلائیں: قومی قرض کوئی دشمن نہیں، لیکن اس کی ملکیت اور اس کے گرد موجود نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے۔‎دولت کی عدم مساوات اور حل‎قومی قرض کی ملکیت کی حراستی اور عالمی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ظاہر ہونے والی دولت کی عدم مساوات ایک منظم مسئلہ ہے جو معاشی اور سماجی تقسیم کو ہوا دیتا ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے عملی حل یہ ہیں، جو قرض، ٹیکس، اور دولت کی تقسیم کی حرکیات پر مبنی ہیں:1. قومی قرض پر سود کی شرحیں کم کریں�قومی قرض پر زیادہ سود کی ادائیگیاں دولت مندوں کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچاتی ہیں، جو اسے پنشن فنڈز اور دیگر سرمایہ کاری کے ذریعے رکھتے ہیں۔ حکومتیں ان شرحوں کو کم کرنے کے لیے کام کریں، تاکہ سب سے اوپر 1 فیصد کو غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بہاؤ کم ہو۔

مرکزی بینک ایسی پالیسیوں کو ترجیح دے سکتے ہیں جو سود کی شرحوں کو معتدل رکھیں، تاکہ قرض کی خدمت دولت کی حراستی کو نہ بڑھائے۔2. غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر منصفانہ ٹیکس لگائیں�سود اور دیگر غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی، جیسے کہ ڈیویڈنڈز یا کیپیٹل گینز، پر اکثر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کم شرح پر ٹیکس لگتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ حکومتیں غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کو کم از کم مزدوروں کی آمدنی کے برابر، یا اس سے زیادہ کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، سرمایہ کاری کی آمدنی پر ہلکے ٹیکس کے خلا کو بند کرنے سے سب سے امیر لوگوں سے دولت واپس لی جا سکتی ہے، جو قرض کے سود سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔3. ترقی پسند ٹیکس نظام نافذ کریں�زیادہ ترقی پسند ٹیکس—زیادہ آمدنی اور دولت پر زیادہ ٹیکس کی شرحیں—وسائل کی دوبارہ تقسیم اور عوامی خدمات کے لیے فنڈنگ کر سکتی ہیں۔ دولت کے ٹیکس، جیسے کہ املاک، اسٹاکس، یا بانڈز پر جو انتہائی امیر رکھتے ہیں، قومی قرض کی ملکیت کی حراستی کو براہ راست حل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ارب پتیوں کی دولت پر 1-2 فیصد سالانہ ٹیکس اربوں ڈالر عوامی سرمایہ کاری کے لیے پیدا کر سکتا ہے بغیر درمیانی یا محنت کش طبقے پر بوجھ ڈالے۔4. قرض کی ملکیت کو جمہوری بنائیں�قومی قرض اکثر نجی طور پر رکھا جاتا ہے، لیکن حکومتیں اسے زیادہ عوامی کنٹرول میں لا سکتی ہیں، جیسا کہ جاپان میں دیکھا گیا ہے، جہاں ملکی ملکیت غالب ہے۔ مقداراتی نرمی، جو 2008 اور کووڈ کے بحرانوں میں استعمال ہوئی، قرض کو عوامی اثر و رسوخ میں لاتی ہے کیونکہ مرکزی بینک اسے خریدتے ہیں۔ مقداراتی سختی جیسے پالیسیوں کو الٹ کر، جو قرض کو نجی ہاتھوں میں واپس دیتی ہیں، مدد مل سکتی ہے۔ عوامی ملکیت نجی سرمایہ کاروں کو دولت کی منتقلی کو کم کرتی ہے اور معیشتوں کو مستحکم کرتی ہے۔5. عوامی خدمات اور سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط کریں�جب صحت، تعلیم، اور رہائش جیسی عوامی خدمات کم فنڈ کی جاتی ہیں، تو دولت کی عدم مساوات بڑھتی ہے، کیونکہ لوگ سیکیورٹی کے لیے نجی دولت پر انحصار کرتے ہیں۔ ترقی پسند ٹیکسوں سے فنڈ کی جانے والی مضبوط عوامی سرمایہ کاری اس انحصار کو کم کر سکتی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم یا مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات جیسے اقدامات میدان کو برابر کر سکتے ہیں، جس سے 99 فیصد کو وہ مواقع مل سکیں جو فی الحال دولت مندوں کے ہاتھ میں ہیں۔6. پنشن اور سرمایہ کاری کے نظام میں اصلاحات کریں�پنشن فنڈز، جو قومی قرض کے بڑے حصص رکھتے ہیں، اکثر دولت مندوں کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔

ان نظاموں تک رسائی کو جمہوری بنانا—عوامی پنشن پلانز یا وسیع تر شرکت کے لیے مراعات کے ذریعے—قرض کی ملکیت کے فوائد کو پھیلا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پنشن فنڈز کو سماجی بھلائی کو ترجیح دینے کے لیے ریگولیٹ کرنا، نہ کہ اشرافیہ کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع، ان کے اثرات کو بدل سکتا ہے۔7. عالمی سطح پر دولت کی دوبارہ تقسیم کو فروغ دیں�چونکہ دولت کی عدم مساوات ایک عالمی مسئلہ ہے، اس لیے بین الاقوامی تعاون کلیدی ہے۔ کارپوریشنز اور زیادہ دولت والے افراد پر عالمی کم از کم ٹیکس جیسے مربوط پالیسیاں، انتہائی امیر لوگوں کو ٹیکس ہیونز میں دولت چھپانے سے روک سکتی ہیں۔ OECD جیسی تنظیمیں ممالک بھر میں ترقی پسند ٹیکس پالیسیوں کو معیاری بنانے کی کوششوں کی قیادت کر سکتی ہیں۔8. عوامی شعور اور وکالت کو فروغ دیں�قومی قرض کے بارے میں بیانیے کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بوجھ نہیں بلکہ معیشتوں کو چلانے والی مالیاتی سپلائی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے۔ عوامی تعلیمی مہمات اسے واضح کر سکتی ہیں، لوگوں کو منصفانہ ٹیکس پالیسیوں اور قرض کے انتظام کا مطالبہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ عوامی تحریکیں حکومتیں پر دباؤ ڈال سکتی ہیں کہ وہ 1 فیصد کے بجائے 99 فیصد کو ترجیح دیں۔‎یہ حل ایک ایسی نظام کو متوازن کرنے کا مقصد رکھتے ہیں جہاں دولت مند قومی قرض سے منافع کماتے ہیں جبکہ اکثریت جدوجہد کرتی ہے۔ سود کے بوجھ کو کم کر کے، غیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس لگا کر، اور ترقی پسند پالیسیوں کے ذریعے دولت کی دوبارہ تقسیم کر کے، حکومتیں زیادہ منصفانہ معیشت بنا سکتی ہیں۔ قرض کی ملکیت کو جمہوری بنانا اور عوامی خدمات کو مضبوط کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پیسوں کی تخلیق کے فوائد سب کے لیے ہوں، نہ کہ صرف اشرافیہ کے لیے۔

*پنجاب کی فکر چھوڑیں سندھ کا کیا حال ہے اسے دیکھیں اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں، مریم نواز*ڈی جی خان:وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، سندھ کا کیا حال ہے میں بات نہیں کرنا چاہتی، اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں ہم پنجاب کو سنبھال لیں گے۔ڈی جی خان میں الیکٹرو بس مںصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ میں کیوں دنیا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا رہی، میں نواز شریف کی بیٹی ہوں کسی کے آگے امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گی، کوئی باعزت شخص امداد مانگنے کی بات کیسے کرسکتا ہے؟ مجھے کسی امداد کی ضرورت نہیں، پنجاب کے عوام کا پیسہ پنجاب کے عوام پر ہی خرچ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلاول میرا چھوٹا بھائی ہے مگر انہیں کہنا چاہتی ہوں کہ پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کو سمجھائیں، سندھ میں کیا ہورہا ہے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتی آپ اپنے صوبے کو دیکھیں اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں ہم پنجاب کو سنبھال لیں گے۔

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

سائنس اور ٹیکنالوجی

ڈیفنس

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Baadban Tv. All Rights Reserved