
“اپنی پارٹی اور پوری قوم کو پیغام دیتا ہوں کہ تیاری پکڑیں!پشاور جلسے کی کال پر خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی عوام کی بھرپور شرکت پر پوری قوم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جبر کے اس ماحول میں لوگوں کا نکلنا خوش آئیند ہے!”- عمران خان
*سیلاب کی تباہ کاریاں*کئی جگہ فصل مکمل تباہ ہوگئی,سولر سسٹم اور موٹریں دب گئی یا شکستگی کا شکار ہوئیںکئی ڈیرے,کوٹھے,گھر, ٹریکٹر ٹرالیاں اورزرعی آلات ریت کے نیچے 8 سے 12 فٹ ایسے چھُپ گئے جیسے عہدِقدیم کے شہر

پاک فوج نے فتح 4 کروز میزائل کا کامیاب تربیتی تجربہ کر لیا—آئی ایس پی آر کے مطابق فتح 4 میزائل 750 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جدید ایویونکس اور نیویگیشنل سسٹم سے لیس میزائل دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے سکتا ہے۔میزائل کا “ٹرین ہگنگ” فیچر ہدف کو اعلیٰ درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت دیتا ہے۔ اور فتح 4 کی شمولیت سے پاک فوج کے روایتی میزائل سسٹمز کی رینج اور مہارت میں اضافہ ہو گا۔آئی ایس پی آر کے مطابق تجربے کا مشاہدہ چیف آف جنرل اسٹاف اور مسلح افواج کے سینئر افسران نے کیا۔ جبکہ پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز نے کامیاب تجربے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک کشمیری صحافی کی وارننگ ۔آزادکشمیر کی پوری آبادی پاکستان کے ایک ضلع راولپنڈی کے برابر ہے اور اس وقت آزادکشمیر کے دو سپوت لیفٹننٹ جنرل امداد اور لیفٹننٹ جنرل شاہد امتیاز 8 میجر جنرل اکستان آرمی میں دو کورز کمانڈر ہیں۔پاکستان کی قومی اسمبلی کا سابق سپیکر ایک کشمیری،پاکستان کا امریکہ جیسے ملک میں ایک سابق سفیر اسی خطہ سے،پاکستان کی دفتر خارجہ کی ایک ترجمان اسی آزاد خطہ سے۔پاکستان کی فوج میں سینکڑوں اعلی آفیسران اسی آزاد خطہ سے،کئی ریٹائرڈ جرنیل اسی آزادخطہ،سی ایس پی آفیسران کی ایک بڑی تعداد آزادکشمیر سے،سول سروس میں ہر شعبہ میں معقول تعداد اسی شعبہ سے ہے۔پاکستان کی صحافت میں کئی ایک بڑے نام اسی خطہ سے،پاکستان کے ہر بڑے شہر میں کشمیریوں کی ایک بڑی پراپرٹی،اسلام آباد کا سب سے بڑا ٹاور اسی آزاد خطے کے باسیوں کی ملکیت،ڈی ایچ اے،بحریہ ٹائون میں ایک بڑی پراپرٹی کشمیریوں کی،بلیو ایریا سمیت پوش سیکٹروں میں بڑی املاک آزادکشمیر والوں کی۔اس سب کا مطلب ہے کہ پاکستانیوں اور پاکستان نے کبھی ہمارے ساتھ یہ کشمیر یا پاکستانی ہونے کی تفریق کی ہی نہیں۔ہماری جیبوں میں شناختی کارڈ پاکستان کا،ہمارے پاس پاسپورٹ پاکستان کا۔اسی پاسپورٹ پر کینیڈا،یوکے،یورپ،امریکہ اور دیگر ممالک جاکر اسی پاکستان کو گالی دے کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والے سب سے زیادہ اسی خطہ کے باسی۔پاکستان میں سرکاری جابز پر ایک بڑی تعداد اسی کشمیری علاقے کی،یہاں کی یونیورسٹیوں میں اعلی عہدوں پر اسی خطہ کے باسی،ایچ ای سی کا سابق چیئرمین اسی آزاد خطہ سے،وہاں پر ہوٹلوں سمیت دیگر محنت کشوں کی ایک تعداد اسی آزاد خطے کی۔ہمارے کشمیر میں ٹرکوں کے ٹرک اسی پاکستان سے روزانہ اجناس اور غلہ لے کر جاتے ہیں۔ہمارے مارکیٹوں میں 100 فیصد مال اسی پاکستان کی مارکیٹوں کا۔اس کی فوج میں کئی ہمارے اے کے کی یونٹس موجود ہیں۔میرے کشمیری بھائیو! ذرا اس پار سے بھی ایسی معلومات اکٹھی کرو وہاں کے کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا یے۔وہاں کسی ایک کشمیری کے پاس لائنسنس یافتہ اسلحہ نہیں۔وہاں کی فوج میں اعلی عہدے پر کوئی کشمیری نہیں۔وہاں جو سرکار ہے اس میں کشمیریوں کے نمائندوں کی حیثیت سب کے سامنے ہے۔یہ سب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے شہریوں کی طرح ہمیں برابر کے حقوق میسر ہیں جہاں جو میرٹ پر آتا ہے وہ وہاں بھرتی کیاجاتا ہے۔پنجاب کے بعد سب سے زیادہ فوج میں آفیسر بھرتی کرنے کا تناسب کشمیریوں کا ہے۔یہ ہم کشمیریوں پر اس ریاست پاکستان کا اعتماد ہے۔یہاں رہتے کبھی زندگی میں ایک پل کے لئے یہ محسوس نہیں ہوا کہ کسی غیر ملک میں ہیں۔ایسے میں کسی عوامی حقوق کی تحریک کے پلیٹ فارم سے پاکستان یا پاکستانی فوج جو دراصل کشمیریوں کی کی فوج ہے اس کے خلاف نعرے کیوں؟ یہ نفرت کیوں بوئی جارہی ہے؟ایکشن۔کمیٹی عوامی حقوق کی بات کرتی ہے اس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کررہے ہیں تو کہیں پر ایک بھی پاکستانی پرچم کیوں نظر نہیں آتا؟ پہلے مارچ کے دوران کوہالہ انٹری پوائنٹ سے پاکستان کا پرچم کیوں اتارنے کی سازش کی گئی؟ یونیورسٹی گرائونڈ سے پاکستان اور کشمیر کے سٹریٹ لائٹس سے پرچم اتارے گئے تو اس وقت ایکشن کمیٹی کے روح رواں نے پاکستان کا پرچم کیوں حقارت سے ایک طرف رکھ کر صرف کشمیر کا پرچم اتارے جانے کی کہانی کیوں گڑھی؟ کیا ہم نادانی میں کہیں بند گلی میں تو نہیں دھکیلے جارہے؟

ہمارے جلوسوں میں نعرہ کشمیر کو کیوں قومی نعرہ بنایا جارہا ہے؟ یہاں الحاق پاکستان کی بات کرنے والوں کو کیوں گالیاں دے جارہی ہیں؟ کشمیریو! جاگتے رہنا عوامی حقوق کی آڑ میں یہ نہ ہو اپنی منزل سے دور ہو جائو۔یہ علیحدگی کے نعرے چکنے چپڑے ضرور ہوتے ہیں لیکن یہ نعرے ہمارا مستقبل نہیں ہوسکتے۔پاکستان ہماری کتنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتا یے۔ہم اس کو گالی بھی دیتے ہیں لیکن جب ہم سیاسی پناہ کے لئے جارہے ہوتے ہیں تو وہ آنکھیں بند کرکے ہمیں گزرنے دیتا ہے۔اس لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کسی سازش کا شکار نہ ہوں۔ہم کل بھی پاکستانی تھے ہم آج بھی پاکستانی ہیں۔

کربلائے بیروت کی تازہ شہادت ==================شاہد اقبال کامران ==================بیسویں صدی کے قریباً وسط سے شروع کرکے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی تک آتے آتے شرق اوسط کی کمر میں برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے کاشت کردہ اسرائیل نامی فساد نے اپنی غارت گری کو عروج تک پہنچا دیا ہے ۔ اس فساد نے تاریخ کی یادداشت سے مسیحی ریاستوں کے یہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم کو محو کرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے ذہنوں سے مسلمان ریاستوں کی طرف سے یورپ کی مسیحی ریاستوں کے دھتکارے ہوئے یہودیوں کو دی جانے والی پناہ ، تحفظ اور پرامن زندگی کے احسانات کو بھی مٹا کر رکھ دیا ہے ۔اسرائیلی ریاست اس وقت یہودیوں کی نہیں ، صیہونیوں کی نمائندہ ریاست ہے۔جس کی شناخت تعلیم، تحقیق، تجارت اور امن کی بجائے دہشت گردی ، انسانی نسل کشی، اور غارت گری بن چکی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ہمہ وقت حالت جنگ میں رکھنا اسرائیل کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔ اس کا حل اور اس حکمت عملی کا توڑ یہ تھا کہ اسرائیل کو جنگ کے لیے کوئی میدان فراہم نہ کیا جائے۔ تاریخ میں مسلمان ریاستوں نے مسیحی ریاستوں کے ستائے اور ٹھکرائے ہوئے یہودیوں کو ہمیشہ پناہ دی تھی۔یہودیوں سے مخاصمت میسحی ریاستوں کی تھی مسلمانوں کی نہیں ۔امن ،تعلیم اور معیشت سے محبت کرنے والے جنگجو نہیں ہوتے۔یہی بات صدیوں کے دھکے کھا کر یہودیوں نے سیکھی تھی۔جسے برطانیہ اور امریکہ نے مل کر انتہا پسند صیہونیوں کے ذریعے کچل کر رکھ دیا۔آج بھی دنیا میں پرامن یہودیوں کی تعداد جنگی جنون میں مبتلا صیہونیوں سے بہت زیادہ ہے۔ستم یہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا واویلا مچانے والا امریکہ اور اس کی ہر قوالی کے پیچھے تالیاں پیٹنے والا یورپ اسرائیل کے ہر جرم کو آنکھیں بند کر کے مسکرا کر دیکھتے رہتے ہیں۔لیکن میرے خیال میں آج کل اسرائیل کے سب سے بڑے حمائتی اور محافظ اس کے امریکی و یورپی اتحادی نہیں ،بلکہ عرب ممالک سمیت جملہ مسلمان ممالک کی حکومتیں ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ آج لبنان میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر اسرائیل کے میزائل حملوں میں حسن نصراللہ کی شہادت نے افسردہ کر دیا ہے ، گویا کربلائے بیروت کی شہادت گاہ آج بھی خون شہیداں سے مہک رہی ہے ۔ ہر کمزور اور بے عمل انسان کی طرح کئی سوالات نے ذہن پر یلغار کر رکھی ہے ، یعنی جب لبنان میں حزب اللہ کے متعلقین پر پیجر ڈیوائس والے حملے ہوئے تو عام آدمی کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر یلغار کرے گا۔ پھر ہوائی حملے اور میزائیل باری شروع ہوئی۔کیا حسن نصر اللہ اور ان کے ساتھیوں کو علم اور اندازہ نہیں تھا کہ وہ نشانے پر ہیں؟؟؟مجھے بھی حسن نصر اللہ کی شہادت پر افسوس ہے۔لیکن حالت جنگ میں دشمن کو معلوم ٹھکانے پر موجود رہنا جنگی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ذہن میں آتا ہے کہ ؛ ایران اور اس سے وابستہ تنظیموں کو امریکی اور اسرائیلی رسائی ، صلاحیت اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی لاتعلقی کو سامنے رکھ کر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیئے تھی۔ جب حزب اللہ دیکھ رہی تھی کہ اسرائیل والے پیجر اور واکی ٹاکی بلاسٹ کر رہے تھے، جب اسرائیل چن چن کر عسکری کمانڈرز کو شہید کر رہا تھا، تو پھر حسن نصر اللہ شہید کو ماہرانہ احتیاط کرنی چاہیئے تھی۔ایسے تمام خیالات کو ایک افسردہ شخص کے خیالات سمجھا جا سکتا ہے۔کبھی کبھی یوں گمان گزرتا ہے کہ ایران کی اسرائیل دشمنی نے اسرائیل کے تحفظ کی بنیاد ہموار کر کے اسے امریکی و یورپی التفات کا مرکز بنا رکھا ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے موقع پر سوائے رنج اور افسوس کے اظہارِ کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔شہید کی ولولہ انگیز تقاریر نے لبنان کو مزاحمت کا عنوان بنا رکھا تھا۔حق تعالی ان کی قربانی قبول فرمائے ۔مجھے آج اپنے مرحوم دوست نشان حیدر کا خیال آ رہا تھا ، ہم دونوں ٹی وی پر حسن نصراللہ کے ولولہ انگیز خطاب سنا کرتے تھے ۔مجھے نشان حیدر کی وہ ساری توقعات یاد آرہی تھیں ،جن کے مطابق عنقریب اسرائیل کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا۔حزب اللہ نے اپنے محدود وسائل اور ہمدرد ممالک کی ادھوری اعانت و التفات کے ساتھ اسرائیل پر کٹوشا میزائل برسا کر چٹکیاں کاٹنے اور مزاحمت کو تاریخ کے صفحات پر رقم کرنے کا فریضہ بخوبی ادا کیا ،یہ ساری جدوجہد اور قربانیاں نتائج کے حصول میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں۔کبھی گمان گزرتا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی دشمنی کے تصور کو اپنی طاقت بنایا، اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کے بعد سے لے کر اب تک ایران الٹے قدموں پیچھے کی طرف اور اسرائیل سیدھے قدموں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد لبنان کا ایک بہت بڑا چراغ بجھ گیا ہے۔ تو راز یہ کھلا کہ ؛ اب اصل مقابلہ “ایمان ” اور “جذبے” کا نہیں ، “علم” یعنی ٹیکنالوجی کا ہے۔پیجر بلاسٹ کے بعد بھی اگر حزب اللہ اسرائیل کی نیت سمجھ نہیں سکی تو کیا کہہ سکتے ہیں۔حماس کے حملے سے لے کر آج تک اسرائیل کو ڈھنگ کا جواب نہیں مل سکا۔جبکہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں اس کی پشت پر ہیں۔مسلمان ممالک کی حکومتیں بھی اسرائیل ہی کی پشت پر ہیں ۔ایسے میں حکمت عملی مختلف اور مقابلے کی ہونی چاہیئے تھی۔ حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں تو یوں لگنے لگا تھا کہ ایران، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کی سلامتی کے ضامن ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے اور چند سو لوگوں کو یرغمال بنا لینے کے عمل نے اسرائیل کے لیے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کا راستہ ہموار کر دیا ۔پھر اسرائیل کے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں نے ایران کے متعدد کمانڈروں کو شہید کرنا شروع کر دیا

،اس عمل کی انتہا تہران کی محفوظ رہائش گاہ میں اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا واقعہ تھا ۔ ابھی کل اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے صیہونی قصاب نیتن یاہو نے تکبر اور غرور کی آخری حد پر کھڑے ہو کر اعلان کیا ہے کہ ایران کا ہر کونہ ہماری رسائی میں ہے ۔ ایسی صورت میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیوں ایران کے روحانیان کی حکمت عملیاں جانے یا انجانے میں ہمیشہ اسرائیل کے فایدے میں جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ؛عراق ایران جنگ میں ایران کو اسلحے کی سپلائی اسرائیل ہی سے ہوا کرتی تھی۔ یقین ہو جاتا ہے کہ ریاستوں کے تعلقات کی ان گنت تہیں ہوتی ہیں۔ریاستوں کے ہزار چہرے اور سیکڑوں سچ ہوتے ہیں ،اسی طرح ہر ریاست کے اپنے اپنے جھوٹ بھی ہوتے ہیں۔چالباز اور مکار ریاست کا تجربہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ اور کس کو ہوگا۔ یہ بات بہرحال ہم پاکستانیوں کو یاد رکھنی چاہیئے کہ ؛ “نظریاتی ریاست” کا تصور تاریخ کا حد درجہ سنجیدہ مذاق ہے۔دنیا کی ہر ریاست صرف اور صرف اپنے شہریوں کی فلاح کے مقصد قائم کی جاتی ہے۔ امن اسرائیل کے صیہونیوں کے لیے موت کے برابر ہے۔اسرائیل کو محلے کا غنڈہ بنانا امریکہ کی ڈیفس انڈسٹری کے لیے ضروری ہے۔ اس عمل میں امریکہ اور اسرائیل کی اعانت کرنے والا ہر ملک امن ، انسانیت اور سلامتی کا دشمن خیال کیا جانا چاہیئے ۔ کربلائے بیروت کی تازہ شہادت کا اصل سبق بھی شاید یہی ہے ۔ ===================

طویل عرصے تک رہنے والے اسرائیل کے پہلے اور سب سے کم عمر وزیراعظم نیتن یاھو کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھایا گیا گوکہ سرکاری ٹی وی ۔۔پاکستان ٹیلیویژن کی پہلی کوریج محض ایک جھلک تک محدود تھی لیکن جلد ہی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی کوریج کو خبر نامے کی ہیڈلائنز میں شامل کرنے کے احکامات پر عملدرآمد کا آغاز کر دے گا قدیم یروشلم میں واقع” دیوار گریہ ” جسے یہودیوں کے مقدس مقام کا رتبہ حاصل ہے ایک موقع پر نیتن یاہو نے کہا تھا کہ میں نے دیوار گریہ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے دعا بھی مانگی تھی 2019 میں نیتن یاہو کے خلاف رشوت ستانی،دھوکہ دہی اعتماد کی خلاف ورزی اور بعض کاروباری شخصیات سے قیمتی تحائف حاصل کرنے کے الزامات پر مقدمات بھی قائم ہوئے تھے 16 سال تک اپنے ملک اسرائیل کے وزیر اعظم رہنے والے 70 سالہ بنیامن نیتن یاھو کی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا کے تمام نجی چینلز پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھایا گیا گو کہ سرکاری ٹی وی نے محض اسرائیلی وزیر اعظم کی محض ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کیا کیونکہ معاملات ابھی تازہ تازہ ہیں لیکن قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جلد یا بدیر پی۔ٹی۔وی اسرائیلی وزیر اعظم کی کوریج کو خبر نامے کی ہیڈلائنز میں شامل کرنے کے احکامات پر عمل کرنا شروع کر دے گا نیتن یاہو اب تک مجموعی طور پر 16 سال تک اسرائیل کے وزیر اعظم رہے ہیں تاہم انہوں نے یہ ریکارڈ اپنے اقتدار کے تین مراحل میں قائم کیا ،براہ راست عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نیتن یاہو اسرائیل کے پہلے سب سے کم عمر وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں ،2019 میں ان کے خلاف رشوت ،دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے گئے کہ انہوں نے متعدد کاروباری شخصیات سے بیش قیمت تحائف حاصل کیے ایک موقع پر نیتن یاہو نے بتایا تھا کہ یروشلم میں ” مقدس دیوار گریہ ” پر عبادات اور دعائیہ کلمات کے بعد انہوں نے صدر ٹرمپ کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی تھیں

گل احمد ٹیکسٹائل نے ایکسپورٹ اپیرل بزنس بند کرنے کا اعلان کر دیاگل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شئیرز ہولڈز کو آگاہ کردیایہ فیصلہ مسلسل نقصانات، بڑھتی لاگت کے سبب کرنا پڑا ، کمپنی
ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں 6 روپے 71 پیسے کی کمی کردی گئیایل پی جی کی نئی قیمت 207 روپے 48 پیسے فی کلو مقرر
ایکس پر جتنے میں نے قادیانیوں کے حق میں بولتے اکاونٹ دیکھےسارے کے سارے یوتھئیے ہیں
گل احمد ٹیکسٹائل نے ایکسپورٹ اپیرل بزنس بند کرنے کا اعلان کر دیاگل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شئیرز ہولڈز کو آگاہ کردیایہ فیصلہ مسلسل نقصانات، بڑھتی لاگت کے سبب کرنا پڑا ، کمپنی