
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان سے ٹیلی فونک رابطہ دونوں رہنماؤں کے درمیان صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے سینیٹر ایمل ولی خان کو اسپیکر پختونخوا اسمبلی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی

دعوتسینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ پارٹی سے مشاورت کے بعد اے پی سی میں شرکت سے متعلق فیصلہ کیا جائے

شاہ محمود قریشی اچانک جیل سے ہسپتال منتقل ‘ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں فواد چوہدری ‘ مولوی محمود ‘ عمران اسماعیل کی ہسپتال میں شاہ محمود سے اچانک ملاقات ‘ نئی سیاسی ہلچلملاقات کیوں کی ؟ بڑی خبر نے طوفان برپا کردیامیاں محمود الرشید بھی کوٹ لکھپت جیل سے اسپتال منتقل

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات قومی سلامتی کے منافی اور پاکستان دشمنی پر مبنی ہیں۔ پاکستان کے بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے، مگر ان کی سوچ ایک شخص کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں، انسان آتے جاتے رہتے ہیں۔ پاکستان 25 کروڑ عوام کی ملکیت ہے۔ خواجہ آصف

کمال ہے! چوہدری انوارالحق جیسے “وزیراعظمِ کفایت شعار” شاید تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔ خزانے کی بچت کا یہ عالم کہ سینکڑوں ملازمین ریٹائر ہو گئے، مگر آسامیاں خالی کی خالی رہیں، تنخواہیں بچ گئیں تو قوم خوش ہو جائے نا؟لیکن جب بات آئی اپنی کرسی کے تحفظ کی، تو کفایت شعاری کا سبق کہیں گم ہو گیا۔
ایکشن کمیٹی کی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ڈیڑھ ارب روپے بیرونِ ریاست فورسز پر محض ڈھائی سال میں لٹا دیے گئے۔ یہ وہی وزیراعظم ہے جس کے حکم پر 15 نہتے شہری جان سے گئے، اور آج بھی سوشل میڈیا پر کچھ نابالغ عقلیں اسے “بہترین وزیراعظم” قرار دے کر داد دے رہی ہیں۔واقعی، اگر ظلم، خودپسندی، جھوٹ ، احسان فراموشی ، سازش ، منافقت، رعونت اور عوام دشمنی معیارِ عظمت ہے، تو چوہدری انوارالحق کو یقیناً تمغۂ ’’ںہترین وزیراعظم‘‘ ملنا ہی چاہیے لیکن ان کی ٹرین کا ٹکٹ کے چکا ہے ،۔

آصف علی زرداری پر تفتیش کے دوران تشدد کرنے اور سلمان تاثیر کو گرفتاری کے وقت تھپڑ مارنے والے پنجاب پولیس کے خوفناک انسپکٹر نوید پہلوان کا دِل دہلا دینے والاانجام ؟یہ وہی انسپکٹر نوید سعید المعروف نوید پہلوان تھا

جس کا نام کبھی پنجاب پولیس میں طاقت، رعب اور بےخوفی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی میں کھیلوں کے کوٹے پر پولیس میں آیا، مگر چند سالوں میں ترقی پاتے ہی طاقت کے نشے میں ایسا بگڑا کہ قانون کا محافظ خود قانون شکن بن گیا۔

لاہور کے خطرناک بدمعاشوں کو مقابلوں میں پار کیا، مگر اسی بہادری کے پردے میں ناجائز دولت سمیٹنے لگا۔ پراپرٹی کے کام کی آڑ میں زمینوں پر قبضے، لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور اثر و رسوخ کے زور پر چوہدراہٹ قائم کرنا اس کی عادت بن گئی۔ مشہور ہوا کہ کراچی میں ایک کیس کی تفتیش کے دوران اس نے آصف علی زرداری پر تشدد کیا،

اور پنجاب اسمبلی کے باہر سلمان تاثیر کو گرفتاری کے وقت تھپڑ مار دیا۔ مگر طاقت کا یہ غرور زیادہ دیر نہ چل سکا۔ کچھ عرصے بعد نیب نے اس کے خلاف ریفرنس دائر کیا تو بیرونِ ملک فرار ہوگیا۔ پلی بارگین کے بعد واپس آیا تو پھر سے پراپرٹی مافیا کے ساتھ جڑ گیا، لیکن قسمت نے مہلت نہ دی۔ رائیونڈ میں ایک قبضے کے تنازعے میں اسی شخص کے بیٹوں نے، جسے کبھی اس نے ذلیل کیا تھا،

گھیر کر اسے اور اس کے ساتھیوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ یوں نوید پہلوان، جو کبھی خوف کی علامت تھا، عبرت کی نشانی بن گیا۔ دولت، طاقت اور زمینیں پیچھے رہ گئیں، اور اس کا خاندان آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ سچ ہے، ظلم اور غرور کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔
		









