
پشاور کور کمانڈرز کا تاریخی تسلسل (1999–2025)1 لیفٹیننٹ جنرل سعید الزفر (1996–2000)یہ دور فاٹا اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرات کے ابتدائی پھیلاؤ کا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پشاور کور کو سرحدی استحکام کے بجائے قبائلی دباؤ اور اسمگلنگ کے چیلنجز کا سامنا رہا۔

2
. لیفٹیننٹ جنرل امتیاز شاہین (2000–2001)جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں افغانستان کے واقعات کے اثرات سرحدوں تک پہنچے۔ 9/11 کے بعد امریکی دباؤ میں پہلی مرتبہ فاٹا میں فوجی موجودگی بڑھائی گئی۔

3. لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق (2001)مختصر مدت، مگر اسی عرصے میں پاکستان نے امریکی اتحادی کے طور پر “وار آن ٹیرر” میں شمولیت اختیار کی۔ پشاور کور نے شمالی وزیرستان اور کرم ایجنسی کے علاقوں میں ابتدائی تعیناتیاں شروع کیں۔

4. لیفٹیننٹ جنرل علی جان اورکزئی (2001–2004)نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کا آغاز اسی دور میں ہوا۔ فاٹا میں ابتدائی فوجی کارروائیاں، اور قبائلی جرگوں کے ذریعے امن معاہدوں کی ابتدا اسی عہد میں کی گئی۔

5. لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین (2004–2005)یہ وہ دور تھا جب ”شکئی“ اور ”سراروغہ“ معاہدے کیے گئے، جن کے نتیجے میں وقتی امن تو قائم ہوا مگر طالبان کو منظم ہونے کا موقع ملا۔ ان معاہدوں کے ٹوٹنے کے بعد دہشت گردی کی نئی لہر اٹھی اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی بنیاد پڑی۔

6. لیفٹیننٹ جنرل محمد حمید خان (2005–2007)انہوں نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے جال کو توڑنے کی کوشش کی مگر TTP کی منظم شکل میں ابھار کو روکنا ممکن نہ رہا۔ اسی دوران لال مسجد آپریشن کے بعد شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوا۔

7. لیفٹیننٹ جنرل (بعد میں جنرل) مسعود اسلم (2007–2010)اس دور میں پاک فوج نے فیصلہ کن آپریشنز کیے: راہِ راست (سوات، 2009) اور راہِ نجات (جنوبی وزیرستان، 2009)۔ سوات، بونیر اور دیر میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ اسی کور نے کیا۔ ہزاروں شہداء کی قربانی کے بعد پہلی بار ریاستی عملداری بحال ہوئی۔

8. لیفٹیننٹ جنرل عاصف یاسین ملک (2010–2011)ان کا دور بحالی و استحکام کا تھا۔ فوجی کامیابیوں کو سول اداروں تک منتقل کرنے اور متاثرہ علاقوں کی تعمیرِ نو پر توجہ دی گئی۔

9. لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی (2011–2014)انہوں نے خیبر، باجوڑ، مہمند اور کرم ایجنسی میں ٹارگٹڈ آپریشنز کیے۔ انہی کی نگرانی میں ضربِ عضب کی تیاری مکمل ہوئی جو 2014 میں شمالی وزیرستان میں شروع ہوا۔

10. لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن (2014–2016)ضربِ عضب کے عملی نفاذ کے دوران قیادت کی۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان بنایا گیا، اور کور نے فاٹا کے تمام اہم مراکز کلیئر کیے۔

11. لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ (2016–2018)انہوں نے سرحدی باڑ (Fence) کی تعمیر اور ردالفساد کے تحت ملک گیر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو آگے بڑھایا۔ دہشت گردی کے گراف میں نمایاں کمی آئی۔

12. لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود (2018–2019)بارڈر مینجمنٹ اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد سول کنٹرول کی بحالی پر کام کیا۔

13. لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود (2019–2021)افغانستان میں طالبان کی واپسی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سرحدی علاقوں میں آپریشنز تیز کیے۔ فاٹا کے انضمام کے بعد پولیسنگ اور گورننس کے مسائل میں فوجی معاونت کا کردار ادا کیا۔

14. لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (2021–2022)طالبان کی کابل میں واپسی کے بعد پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی پالیسی اپنائی۔ اس دوران عارضی جنگ بندی ہوئی مگر TTP نے دوبارہ منظم ہونا شروع کیا۔

15.
لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیات (2022–2024)سیز فائر کے خاتمے اور دہشت گردی کی نئی لہر کے دوران کور نے سرحدی علاقوں میں جارحانہ کارروائیاں بڑھائیں۔ افغان سرزمین سے حملوں کے خلاف جوابی آپریشنز کیے گئے۔

16. لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری (2024–تا حال)موجودہ کور کمانڈر افغان سرحدی تناؤ کے دور میں تعینات ہیں۔ سرحد پار حملوں، فضائی کارروائیوں، اور خیبر پختونخوا میں انسدادِ دہشت گردی کی نئی حکمتِ عملی کے تحت سخت موقف اختیار کیا گیا ہے




نتیجہ و تجزیہ 1. 2001–2006: امن معاہدوں نے وقتی سکون مگر طویل المیعاد خطرہ پیدا کیا۔ 2. 2007–2016: فیصلہ کن فوجی کارروائیوں نے ریاستی رِٹ بحال کی اور دہشت گردی کی لہر توڑی۔ 3. 2017–2019: بارڈر فینسنگ، انٹیلی جنس آپریشنز اور پولیسنگ سے امن بحال ہوا۔ 4. 2021–2022: TTP سے مذاکرات نے وقتی امن مگر بعد میں نئی لہر پیدا کی۔ 5.


2023–2025: دوبارہ عسکری سختی، بارڈر اسٹرائکس، اور علاقائی دباؤ کے ذریعے دہشت گردی کو محدود کرنے کی کوشش۔
		









