

پارلیمنٹ سے خوفزدہ مائنڈ سیٹ ۔ اظہر سیدلڑائی کے کوئی اصول ضابطے نہیں بس اندھی طاقت کی ہوس ہے ۔پارلیمنٹ کی طاقت سے خوفزدہ قوتیں آخر لمحے تک لڑنے کے موڈ میں ہیں ۔ججز کے اندھے اختیارات جن سے مالکان ہی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔بینچز کی تشکیل اور سوموٹو کے تحفظ کیلئے میڈیا عدلیہ اور پیچھے موجود ایک مائنڈ سیٹ کا اتحاد آج پھر واضح طور پر نظر آنے لگا ہے ۔غلام حسین کباڑیے اور سمیع ابراہیم کی رٹ پٹیشن شنوائی کیلئے فوری منظور کر لی گئی ہے اور آٹھ رکنی بینچ بھی قائم کر دیا گیا ہے ۔بینچ کی تشکیل سے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ ایک گروپ ہے جبکہ سات جج دوسرے یعنی قاضی فائز عیسیٰ گروپ کے ہیں جو چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات اور بنچز کی تشکیل کو دنیا کے مہذب ملکوں کے نظام انصاف کی طرز پر ڈھالنا چاہتے ہیں ۔لڑائی حقیقت میں پارلیمنٹ اور مخصوص مائنڈ سیٹ کے درمیان ہے ۔یہ لڑائی اسوقت لڑی جا رہی ہے جہاں ایک طرف بہت گہری کھائی ہے اور معاشی ابتری سے ریاست کے ٹوٹنے کے خدشات بھی موجود ہیں جبکہ دوسری طرف طاقتور پارلیمنٹ اور جمہوریت کا آپشن ہے جس میں بچ نکلنے کے امکانات ہیں ۔ہمارا ہمیشہ سے یقین رہا ہے جنرل ریاست بچانے کی نیت کر کے فیصلے کرتے ہیں ۔اگر کسی انفرادی شخصیت کے دل میں بدنیتی چھپی ہوئی پھر بھی ڈھول نیک نیتی کا بجایا جاتا ہے ۔اس وقت پارلیمنٹ کی دوسری مرتبہ منظور کردہ آئینی ترامیم جو ایک ہفتہ بعد خودبخود قانون بن جائیں گی ان پر آٹھ رکنی بینچ نے ہاتھ ڈال دیا ہے ۔

بینچ میں چونکے آٹھ مخصوص شامل کئے گئے ہیں اس لئے نظر آرہا ہے آٹھ لوگ نظام انصاف پر قبضہ کر کے بائیس کروڑ لوگوں کی پارلیمنٹ کے آئین سازی کے اختیارات سنبھالنے لگے ہیں ۔پارلیمنٹ سے خوف کا یہ عالم ہے کہ قانون بننے سے پہلے ہی اچھل کر شنوائی کیلئے مقرر کر دیا ۔یہ آٹھ جج کامیاب ہو گئے تو جمہوریت اور پارلیمنٹ پر لعنت بھیج دی جائے اور عوامی رائے کے تحفظ کیلئے وہی کردار ادا کیا جائے جو کرنا چاہئے ۔حکومت نے اس بینچ کی سماعت میں حصہ لیا تو پارلیمنٹ کی آئین سازی کی طاقت سے رجوع کرنے کے مترادف ہو گا ۔بینچ کا بائیکاٹ اور چار ججوں کے خلاف حکومتی ریفرنس میں ہی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی چھپی ہوئی ہے ۔