21 نکاتی غزہ امن منصوبہ درج ذیل ہے: 1. فوری جنگ بندی / تمام دشمنیوں کی معطلی۔ 2. محاذِ جنگ کو منجمد کرنا (معاہدے کی مدت کے دوران مزید پیش قدمی نہ ہو)۔ 3. تمام اسرائیلی یرغمالیوں (زندہ اور جاں بحق) کی واپسی 72 گھنٹوں کے اندر۔ 4. فلسطینی قیدیوں کی رہائی (جس میں کچھ “عمر قید” والے قیدی اور وہ بھی شامل ہیں جو جنگ کے آغاز کے بعد گرفتار ہوئے)۔ 5. ہر اسرائیلی یرغمالی (یا باقیات) کی رہائی کے بدلے اسرائیل کئی فلسطینی شہداء کی باقیات واپس کرے گا۔ 6. غزہ کو غیر عسکری بنانا: حماس کی حملہ آور صلاحیتوں (سرنگیں، فوجی ڈھانچہ وغیرہ) کو ناکارہ بنانا۔ 7. غزہ میں حماس اور دیگر “دہشت گرد تنظیموں” کو غیر مسلح کرنا۔ 8. اسرائیل کا غزہ سے مرحلہ وار انخلاء (یعنی فوجی انخلا کو مختلف مراحل میں اہداف کے ساتھ منسلک کرنا)۔ 9. بین الاقوامی / عرب شراکت داروں پر مشتمل ایک استحکام فورس کا قیام۔ 10. غزہ کی حکمرانی ایک آزاد (عارضی) اتھارٹی یا کمیٹی کے ذریعے (حماس کے بجائے)۔ 11. بالآخر حکمرانی کو اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو منتقل کرنا۔ 12. فلسطینیوں کو غزہ میں رہنے کی حوصلہ افزائی (یعنی بڑے پیمانے پر ہجرت کی مخالفت)۔ 13. امریکا / اسرائیل / قطر (اور ممکنہ طور پر دیگر ممالک) کے درمیان ایک “تین فریقی طریقہ کار” تشکیل دینا تاکہ ہم آہنگی، سلامتی، غلط فہمیوں کو دور کرنے اور سفارتی روابط کو یقینی بنایا جا سکے۔
14.
اسرائیل کا افسوس کا اظہار کرنا / دوسرے ممالک کے خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے والے حملوں سے باز رہنا (جیسا کہ قطر پر حملے کو تسلیم کیا گیا ہے)۔ 15. اسرائیل کا مغربی کنارے کو ضم نہ کرنے پر اتفاق (منصوبے کی شرائط کے حصے کے طور پر)۔ 16. ایک “امن بورڈ” (یا نگران بورڈ) کا قیام، جس کی قیادت امریکا کرے یا اس میں شامل ہو، تاکہ غزہ کی عارضی حکومت کی نگرانی کی جا سکے۔ 17. انسانی امداد اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو غیر عسکری عمل اور انخلاء کی شرائط سے منسلک کرنا۔ 18. اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے سیاسی راستہ یا افق (یعنی طویل المدتی سیاسی مذاکرات)۔ 19. فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی اصلاح تاکہ اسے زیادہ قابل قبول اور فعال بنایا جا سکے۔ 20. عرب اور مسلم ممالک کا تحریری طور پر (بیشتر معاملات میں) اس بات پر عزم کہ وہ حماس سے “نمٹنے” میں مدد کریں گے (یعنی دباؤ ڈالنا، غیر مسلح کرنا یا حمایت روکنا)۔ 21. ہر مرحلے (انخلاء، قیدیوں کا تبادلہ، سیکیورٹی انتظامات وغیرہ) کے لیے ٹائم لائن اور اہداف پر تمام فریقین کی واضح اتفاق رائے۔
“Qataris are happy and satisfied with Netanyahu’s apology! It’s like someone getting raped and then the perpetrator apologizes! Is that something to be happy about?!”
یہ وہ نکات ہیں جو ابھی تک غیر حل شدہ یا متنازعہ ہیں، جن پر نیتن یاہو/اسرائیل، امریکا اور مسلم/عرب ریاستوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے (یا جن کی نیتن یاہو مخالفت کرتا ہے): 1. کیا اسرائیل کو غزہ سے مکمل انخلاء کرنا چاہیے (یعنی کب اور کس حد تک)؟ نیتن یاہو انخلاء کو محدود یا مشروط رکھنا چاہتا ہے۔ 2. فلسطینی اتھارٹی (پی اے) یا غیر حماس حکومتی ڈھانچے کو غزہ میں کتنی اختیار، حیثیت یا قانونی حیثیت دی جائے؟ نیتن یاہو اس پر محتاط ہے۔ 3. کیا اسرائیل مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہو؟ نیتن یاہو اس کو علانیہ طور پر مسترد کرتا ہے۔ 4. اہداف اور ٹائم لائنز کی سختی یا پابند نوعیت؛ اسرائیل کو ان پر کس حد تک سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ 5. سیکیورٹی کی نگرانی، استحکام فورسز میں بین الاقوامی / عرب شرکت کا دائرہ اور یہ کہ آیا یہ اسرائیل کی خودمختاری کو محدود کرے گی یا نہیں۔ 6. غیر عسکری بنانے (ڈیمیلٹرائزیشن) کی شرائط اور یہ کہ آیا اسرائیل کو دوبارہ داخل ہونے یا کارروائی کرنے کا حق حاصل رہے گا اگر خطرات دوبارہ سامنے آئیں۔ 7. اسرائیل کے سلامتی کے مطالبات (بفر زونز، اسٹریٹجک کنٹرول) برقرار رہیں گے یا ان پر سمجھوتہ ہوگا۔
🟠 ٹرمپ کا غزہ امن 20 نکاتی منصوبہ جاری 1. غزہ کو ایک “انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک علاقہ” بنایا جائے گا جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔2. غزہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا تاکہ غزہ کے عوام کو فائدہ پہنچے، جو پہلے ہی بہت زیادہ قربانیاں دے چکے ہیں۔3. اگر دونوں فریق اس تجویز پر متفق ہو جاتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج متعین لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی تاکہ یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کی جا سکے۔ اس دوران تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی اور توپ خانے کے حملے، معطل رہیں گے اور محاذ کی لائنیں جمی رہیں گی جب تک مکمل انخلا کے حالات پورے نہ ہوں۔4. اسرائیل کے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹے کے اندر تمام یرغمالیوں — زندہ اور جاں بحق — کو واپس کر دیا جائے گا۔5. تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید کے قیدیوں کے ساتھ ساتھ 1700 ایسے غزی باشندوں کو رہا کرے گا جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے تھے، بشمول تمام خواتین اور بچے۔ ہر ایک اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے 15 غزی شہداء کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔6. یرغمالیوں کی واپسی کے بعد، وہ حماس کے ارکان جو پرامن بقائے باہمی کو قبول کریں اور اپنے ہتھیار ڈالیں، انہیں معافی دی جائے گی۔ جو حماس ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں گے، انہیں محفوظ راستہ اور قبول کرنے والے ممالک میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔7. معاہدے کے قبول ہوتے ہی فوری طور پر مکمل امداد غزہ میں بھیجی جائے گی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسی آب) کی بحالی، اسپتالوں اور تنوروں کی مرمت، اور ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری سامان شامل ہوگا۔8. امداد کی تقسیم اور رسائی اقوامِ متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بغیر کسی رکاوٹ کے ہوگی۔ رفح کراسنگ دونوں اطراف کے لیے اسی میکانزم کے تحت کھولی جائے گی جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں شامل تھی۔9. غزہ کو ایک عارضی “ٹیکنوکریٹک فلسطینی کمیٹی” کے تحت چلایا جائے گا جو عوامی خدمات کی فراہمی اور بلدیاتی امور کی دیکھ بھال کرے گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینی ماہرین اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہوگی، جس پر “بورڈ آف پیس” کی نگرانی ہوگی۔ اس ادارے کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے، دیگر عالمی رہنماؤں، بشمول ٹونی بلیئر، کو شامل کیا جائے گا۔ یہ ادارہ غزہ کی ترقی اور فنڈنگ کے فریم ورک کا تعین کرے گا، یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کر کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے قابل ہو۔10. غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ٹرمپ اکنامک ڈیویلپمنٹ پلان تشکیل دیا جائے گا، جس میں مشرقِ وسطیٰ کے جدید شہروں کی طرز پر ترقیاتی منصوبے تیار کرنے والے ماہرین شامل ہوں گے۔ اس منصوبے کے ذریعے روزگار اور ترقی کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔11. ایک خصوصی اکنامک زون قائم کیا جائے گا جس میں شریک ممالک کے ساتھ تجارتی مراعات طے ہوں گی۔12. کسی کو بھی زبردستی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ جانا چاہیں گے وہ آزاد ہوں گے اور واپس آنے کا حق بھی رکھیں گے۔ عوام کو غزہ میں رہنے اور بہتر مستقبل بنانے کی ترغیب دی جائے گی۔13. حماس اور دیگر گروہوں کا غزہ کی حکومت میں کوئی براہِ راست یا بالواسطہ کردار نہیں ہوگا۔ تمام عسکری و دہشت گرد ڈھانچے، بشمول سرنگیں اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں، تباہ کی جائیں گی۔ 14. علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں اور “نیا غزہ” اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ ہو۔15. امریکہ عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی “انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)” تشکیل دے گا جو فوراً غزہ میں تعینات ہوگی۔ یہ فورس فلسطینی پولیس کو تربیت اور معاونت دے گی اور سرحدی علاقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے میں مدد کرے گی 16. اسرائیل غزہ پر قبضہ یا انضمام نہیں کرے گا۔ جیسے ہی ISF کنٹرول سنبھالے گی، اسرائیلی فوج مرحلہ وار انخلا کرے گی، صرف ایک حفاظتی پٹی برقرار رہے گی جب تک غزہ مکمل طور پر محفوظ نہ ہو جائے۔17. اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرتی ہے تو مذکورہ منصوبہ ان علاقوں میں لاگو ہوگا جو IDF سے ISF کو منتقل کر دیے جائیں گے۔18. ایک “بین المذاہب مکالمہ” عمل شروع کیا جائے گا تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے رویوں اور بیانیوں کو بدل کر پرامن بقائے باہمی کی فضا قائم کی جا سکے۔19. جیسے غزہ کی تعمیرِ نو اور فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات آگے بڑھیں گی، فلسطینی عوام کے لیے ریاستی خودمختاری اور حقِ خود ارادیت کی راہ ہموار کی جائے گی۔20. امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سیاسی افق پر مذاکرات کا آغاز کرے گا تاکہ پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے امکانات پیدا کیے جا سکیں۔
🚨 جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ ، 9 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 7 زخمی ہوگئے 🚨* پاکستان تحریک انصاف کا اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگانے کا فیصلہ**اراکین قومی اسمبلی و سینٹ اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگائیں گے ، بیرسٹر گوہر*
مُحَمَّد رضوان کو پھر کپتانی دینے پر محسن نقوی نے بول دیا اور رضوان میں نے تین شرط پر کپتانی لونگا✌🏻☝🏻1مجھے یہ انٹینٹ اور ماڈرن ڈے والے پلیرز نہیں چاہیےمیں ٹیم خود سلیکٹ کروگا✊🏻2مجھے ولڈ کپ تک کپتانی دی جاۓ3عاقب جاوید مجھ سے کچھ بھی ڈیمانڈ نہیں کر سکتا میں خود اپنی ٹیم کا اچھا برا سوچوں گا🔥
آزاد کشمیر میں تحریک ۔ اظہر سیدآزاد کشمیر میں خودمختار کشمیر کے حامی شائد مل جائیں بھارت کے حامی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی را آپریشن سیندور کی ناکامی کے بعد آزاد کشمیر میں بدامنی اور شورش کیلئے پیسہ پانی کیلئے بہائے گی لیکن را سے فنڈز لینے والوں کیلئے کھلے عام بھارت کی وکالت کرنا بہت مشکل ہو گا ۔طریقہ یہی ہے جو اپنایا جا رہا ہے ۔چارٹر آف ڈیمانڈ پر تحریک شروع ہو ۔حکومت ڈنڈا استمال کرے اور پھر اس کا ردعمل پاکستان اور کشمیریوں میں نفرت کا آغاز بنے۔حکومت اس معاملے کو احتیاط سے نپٹائے۔عام کشمیری پاکستان سے محبت اور بھارت سے نفرت کرتا ہے ۔چند لیڈروں کی لگائی آگ میں بھارتیوں کو ہاتھ سینکنے کاموقع ہر گز نہ دیا جائے اور عام کشمیری کی پاکستان سے محبت پر اعتماد کیا جائے۔جن شر پسندوں نے آج سیکورٹی فورسز کے جوانوں پر گولی چلائی یا اغوا کیا ان کے ہنڈلر کو پکڑا جائے ۔عام کشمیری جو ہجوم میں شامل تھے یا گولی چلانے والوں کے آس پاس تھے وہ ہجوم کا حصہ تھے اور ہجوم کبھی بھی مجرم نہیں ہوتا۔ڈرامہ کے اصل ڈائریکٹر اسٹیج کے پیچھے ہوتے ہیں۔حکومتی کریک ڈاؤن عام کشمیریوں کے خلاف ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔مطالبات سارے جائز ہیں ۔عام کشمیری کو نہیں پتہ کونسے مطالبات پورے ہو سکتے ہیں اور کون سے نہیں یا معیشت کے کیا حالات ہیں۔یہ معاملہ سختی سے نہیں بلکہ نرمی اور احتیاط سے نپٹانے کی ضرورت ہے۔
بریکنگ: یمن میں 24 پاکستانی عملے والے ایل پی جی ٹینکر پر اسرائیلی ڈرون حملہ، خطے میں سنگین جغرافیائی سیاسی سوالات کھڑےاسلام آباد — ایک نہایت ڈرامائی اور تشویشناک انکشاف میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ہفتے کے روز (ترک میڈیا کے مطابق) تصدیق کی کہ اس ماہ کے آغاز میں یمن کی بندرگاہ راس العیسیٰ پر لنگر انداز ایک مائع قدرتی گیس (ایل پی جی) ٹینکر کو اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنایا۔ جہاز پر 27 افراد سوار تھے، جن میں 24 پاکستانی شامل تھے۔حملے کے نتیجے میں جہاز کے ایک ٹینک میں دھماکہ ہوا جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور عملے کو اپنی جان بچانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ اگرچہ آگ پر قابو پا لیا گیا، لیکن صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب حوثی کشتیاں جہاز کے قریب آئیں اور عملے کو یرغمال بنا لیا۔ کئی دن کی غیر یقینی کیفیت کے بعد حوثیوں نے بالآخر ٹینکر اور اس کے عملے کو رہا کر دیا، جو اب یمنی پانیوں سے باہر ہیں۔یرغمال بننے والوں میں جہاز کے کپتان مختار اکبر بھی شامل تھے، جو اپنے پاکستانی ساتھی ملاحوں، دو سری لنکن اور ایک نیپالی کے ساتھ پھنس گئے تھے۔ وزیرِ داخلہ نقوی نے پاکستان کے سول اور سیکیورٹی اداروں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے “مایوسی کی گھڑی میں غیر معمولی حالات کے تحت پاکستانی شہریوں کی محفوظ رہائی” ممکن بنائی۔اس انکشاف نے علاقائی میڈیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ جہاں پاکستان کا مرکزی میڈیا اس معاملے پر خاموش ہے، وہیں مشرقِ وسطیٰ، ترکی اور بھارت کے ذرائع ابلاغ اس خبر کو بھرپور انداز میں اجاگر کر رہے ہیں اور اسے اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کے تناظر میں ایک نہایت خطرناک موڑ قرار دے رہے ہیں، جہاں اکتوبر 2023 سے اب تک 65 ہزار 500 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔یہ حملہ نہ صرف بحیرہ احمر کے غیر مستحکم خطے کے لیے ایک الارم ہے بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مستقبل کے دفاعی تعلقات پر بھی گہرے سوالات کھڑا کرتا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ — اور اس کے بعد حوثیوں کی مداخلت — اسلام آباد کی اُس نازک توازن کی پالیسی کو مشکل بنا سکتی ہے جو وہ ریاض، تہران اور تل ابیب کے درمیان قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔“یہ محض ایک سمندری حادثہ نہیں ہے،” ایک سینئر علاقائی مبصر نے کہا۔ “یہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی دفاعی ذمہ داریاں، خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ، دنیا کے سب سے آتش فشاں جیسے سیاسی منظرنامے میں پرکھی جائیں گی۔”جوں جوں کشیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور بیانیے تقسیم ہو رہے ہیں، ایک حقیقت بالکل واضح ہے: عام پاکستانی ملاحوں سے بھرا ایک جہاز مشرقِ وسطیٰ کی بڑی جنگوں میں الجھ چکا ہے — وہ جنگیں جن کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے
نااہلی کی قیمت : انکار کا خمیازہدنیا کی جدید تاریخ میں بہت کم اقوام ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ہی صلاحیت اور امکانات کو اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ ضائع کیا ہو جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس ملک کی جمہوری کاوشیں محض بیرونی سازشوں یا خطے کی مداخلت سے نہیں ڈگمگائیں بلکہ اصل وجہ اپنی ہی سیاسی قیادت کی ہمہ گیر نااہلی اور مسلسل ناپختگی ہے۔ پاکستان کے سیاسی انتشار کے مرکز میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے: جنہیں آئین کی حفاظت اور جمہوری ڈھانچے کی پرورش کا امین بنایا گیا، وہ ہمیشہ بصیرت، ضبط اور ذہنی صلاحیت سے محروم نکلے۔ یہی کمی ایک ایسا مکروہ شیطانی چکر بنا چکی ہے جو بار بار لوٹ آتا ہے۔ جب بھی سیاسی قیادت لڑکھڑاتی ہے تو وہ فوجی قیادت کو مدد کے لیے پکارتی ہے، کبھی براہِ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں۔ یہ پکار قومی مفاد کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی مصلحت، سیاسی عدمِ تحفظ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے زیرِ اثر کی جاتی ہے۔ یوں سیاست دانوں نے فوج کو ریاستی نظم کا شراکت دار نہیں بنایا بلکہ اپنی ناکامیوں کا سہارا بنا دیا، اور یوں فوج کو ان معاملات میں گھسیٹا جہاں بنیادی طور پر عوامی نمائندوں کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ یہی تسلسل بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ سیاسی طبقہ اپنی ہی انتخابی نشستوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو پورے نظام کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ جو سیاست دان دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے، جو رعایت اور سفارش کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے، اور جو آئین کی حدود اور قانون کی حکمرانی پر قائم نہیں رہ سکتے، وہ جمہوریت کے امین کیسے بن سکتے ہیں؟ جو اپنی سیاسی ساکھ کو سہارا نہیں دے سکتے، وہ پورے نظام کی ساکھ کے محافظ نہیں بن سکتے۔ یہ المیہ حالیہ مہینوں میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ اور امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی صلاحیت کو بیوروکریسی میں نہیں بلکہ فوج میں دیکھتی ہے۔ ان اہم مواقع پر پاکستان کی نمائندگی وزراء یا تجربہ کار بیوروکریٹس نے نہیں کی بلکہ وزیرِ اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کھڑے تھے۔ مخالف عناصر نے اسے فوج کے “شہری آزادیوں پر قبضہ” اور “آئینی حدود سے تجاوز” کے طور پر پیش کیا، مگر درحقیقت یہ زیادہ تلخ حقیقت کی عکاسی تھی: دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی اصل پیشہ ورانہ صلاحیت کہاں ہے۔ اور وہ پیشہ ورانہ صلاح عوامی قیادت میں نہیں۔ یہ انحصار محض آج کا نہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اہم قومی و بین الاقوامی مذاکرات نے بارہا سول اداروں کی ناپختگی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ کشمیر تنازعہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دور ہوں یا غیر ملکی امداد کی شرائط، بڑے قومی منصوبوں کی نگرانی ہو یا مالیاتی بحران کا حل ہر جگہ سیاسی ناکامی نے ریاست کو کمزور کیا۔ پانی کے مذاکرات میں جماعت علی شاہ کا کردار، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی .آئی .اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا زوال، اور آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار کی سبکی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ سیاسی قیادت نے قومی مفاد کو بارہا اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس کے برعکس فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے اداروں جیسے امریکی محکمۂ خارجہ، برطانوی فارن آفس یا بین ا لاقوامی سلامتی کے دیگر اداروں کی سطح پر اپنی مہارت دکھا سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا سے مکالمے کی اصل نمائندہ اس لیے بنی کہ سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خلا کو پر کرنے کی ناگزیر صورت تھی۔ کچھ حلقے فوجی کردار کو براہِ راست غیر آئینی اور آمرانہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ تنقید اس منطقی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ فوجی مداخلت کسی خلا میں جنم نہیں لیتی بلکہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب سیاسی رہنما اپنی غفلت اور کمزوری سے بحران کو جنم دیتے ہیں تو پھر غیر سول ادارے مداخلت پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوج پر جمہوریت پر قبضہ کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قیادت نہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے، نہ آئین کی پاسداری کر سکتی ہے، اور نہ ہی ریاستی امور کی بنیادی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے، وہ کس منہ سے بالادستی کی دعوے دار بن سکتی ہے؟ اور عوام یا دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے؟ اس صورتِ حال کا حل بار بار کی مداخلت یا “سول بالادستی” کے اندھے نعرے نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی فکری، تنظیمی اور اخلاقی کمزوریوں کا اعتراف کرے۔ جب تک اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں ہو گا، کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہیں حقیقی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا، ایسا اتفاق جو وقتی جوڑ توڑ پر مبنی نہ ہو بلکہ ریاستی استحکام، قانون کی حکمرانی اور قومی ترجیحات پر پائیدار سمجھوتہ ہو۔ تبھی وہ ریاستی ذمہ داری سنبھالنے اور جمہوریت کے تحفظ کا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی پختگی سامنے نہیں آتی، سول بالادستی کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ بالادستی سے پہلے صلاحیت ضروری ہے۔ خودمختاری صرف نعروں اور تقریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی،
اس کے لیے بصیرت، ادارہ جاتی ضبط اور فکری طاقت درکار ہے۔ ان اوصاف کے بغیر پاکستان ہمیشہ اسی دائرے میں قید رہے گا: سیاسی قیادت ناکام، فوجی قیادت مداخلت کرتی ہوئی، اور ریاست معلق حیثیت میں جھولتی ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ انہوں نے بارہا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی، فوج کو وہاں گھسیٹا جہاں اس کا کام نہیں تھا، اور جمہوریت کو ایک سرکاری نوکریوں اور نوازشات کی منڈی میں بدل دیا۔ جب تک اس حقیقت کا اعتراف اور تدارک نہیں ہوتا، ریاست ایسے ہی خودساختہ بحرانوں میں پھنسی رہے گی، اور ہر نیا بحران پچھلے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اس سلسلے کی اگلی قسط ریاستی زوال کے ایک اور سنگین پہلو پر روشنی ڈالے گی: پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی۔ جس طرح سیاسی قیادت نے حکومت کو ترک کیا، اسی طرح عدلیہ نے بھی انصاف کو چھوڑ دیا۔ دونوں نے مل کر ریاست کو ایک نازک توازن پر لٹکا دیا ہے، جہاں نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی قانون۔ (جاری ہے)
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جانب سے ایشیا کپ فائنل کے بعد ٹویٹ انتہائی غیر سنجیدہ اور سستی حرکت ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم کو اس سطح پر نہیں آنا چاہیے تھا۔ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا ضروری ہے اور ہمارے وزیراعظم کو بھی خاموش رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ایسی حرکت منصب کی وقعت کم کرتی ہے۔بھارتی مؤرخ رام چندرا گہا
غزہ اتھارٹی کا صدرمیں خود ہوں گا،ٹونی بلیئررکن ہونگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپحماس نے امن معاہدہ قبول کرلیا تو تمام یرغمالی رہا کردیئے جائیں گے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپنئی حکومت فلسطینیوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہوگی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپاسرائیل اپنے یرغمالیوں کی فوری واپسی چاہتا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ محض تماشائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر امن قائم کرنے والا کھلاڑی ہے، امریکی صدرجب دنیا صرف زبانی جمع خرچ کر رہی تھی، پاکستان نے عملاً غزہ کے امن کے لیے کردار ادا کیا، امریکی صدریہ پاکستان کا نیا عالمی مقام ہے کہ وہ دنیا بھر میں امن کا ضامن بن رہا ہے، امریکی صدر آج ان کی قیادت نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی امن قائم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، امریکی صدرپاکستان کی قیادت عالمی امن کے لیے ایک مثال بن چکی ہے، امریکی صدریہ پاکستان کی سفارتی اور عسکری قیادت کی تاریخی کامیابی ہے، امریکی صدردنیا اب پاکستان کو امن کے معمار کے طور پر دیکھ رہی ہے، امریکی صدر
🚩 کامیاب ہڑتال — عوامی فتح 🚩جوانیٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پرعزم ہڑتال نے تاریخ رقم کر دی!یہ کامیابی دراصل آزاد کشمیر کے باشعور عوام اور بہادر نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کا روشن استعارہ ہے۔ عوام کی آواز گونج اٹھی — ✊🔥 نوجوانوں کا عزم سرخرو ہوا ✊ کشمیر کا مستقبل جگمگا اٹھا — ✊سلام عقیدت اُن سب کو جنہوں نے اپنے حوصلے اور اتحاد سے یہ ثابت کر دیا کہ حق کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایم پی اے معین قریشی کو پنجاب اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن نامزد کردیا گیا
🚨 *جب آپ اپنی توجہ خدمت سے ہٹا کر گالی گلوچ اور پگڑیاں اچھالنے پر لگاتے ہو پھر آج جو کچھ آپ کے ساتھ ہورہا ہے اسکو مکافات عمل کہتے ہیں۔بہت منصوبہ بندی کرکے پختونخوا میں جلسہ کیا گیا تو یہ بہت عبرت کا مقام ہے جو دوسروں پہ سیاہی پھینکنے کی ترغیب دیتے تھے آج ایک دوسرے کو جوتے مار رہے ہیں۔**وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز*
🚨 جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ ، 9 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 7 زخمی ہوگئے 🚨* پاکستان تحریک انصاف کا اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگانے کا فیصلہ**اراکین قومی اسمبلی و سینٹ اڈیالہ جیل کے باہر عوامی اسمبلی لگائیں گے ، بیرسٹر گوہر*
🚨 معافی کا انتظار نہیں کر رہا ، اپنی بے گناہی ثابت کروں گا : سابق فرانسیسی صدرمعافی صرف اُس صورت میں لاگو ہو سکتی ہے جب سزا حتمی اور قابلِ نفاذ ہوپیرسفرانس کے سابق صدر نکولا سارکوزی نے اعلان کیا ہے کہ لیبیا سے غیر قانونی انتخابی فنڈنگ کے مقدمے میں پانچ سال قید کی سزا کے بعد وہ کسی بھی صورت میں صدارتی معافی کے منتظر نہیں ہیں۔ اتوار کو فرانسیسی اخبار “لو جورنال دو دیمانش” میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنی “دیانت داری” ثابت کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔پیرس کی ایک عدالت نے جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سابق فرانسیسی صدر کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت کے مطابق انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو سابق لیبیائی رہنما معمر قذافی سے 2007 کی انتخابی مہم کے لیے غیر قانونی فنڈنگ حاصل کرنے کی اجازت دی تھی۔انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ صدر ایمانوئل ماکروں سے معافی کی توقع رکھتے ہیں، تو سارکوزی نے جواب دیا “نہیں”۔سابق صدر نے وضاحت کی کہ “معافی کے لیے ضروری ہے کہ آپ عدالت کے فیصلے کو قبول کریں اور اپنے جرم کا اعتراف کریں۔ میں کبھی اس جرم کا اعتراف نہیں کروں گا جو میں نے کیا ہی نہیں۔ میں اپنی دیانت داری کے اعتراف کے لیے آخر تک لڑوں گا۔” انھوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا “میں کامیاب ہوں گا۔”واضح رہے کہ معافی صرف اُس وقت ممکن ہے جب سزا حتمی اور قابلِ نفاذ ہو، اور فی الحال یہ اقدام زیر غور نہیں کیونکہ سارکوزی نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔#لیبیا#نکولا_سورکوزی#فرانس
🚨 *آزاد کشمیر میں احتجاج کا حق ہے مگر انتشار سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے: ترجمان پاک فوج*ڈی جی آئی ایس پی آر کا آزاد کشمیر کی مختلف جامعات کے طلبہ سے پلندری میں خطاب سوشل میڈیا پر وائرلترجمان نے مختلف جامعات کے ایک ہزار سے زائد طلبا اور اساتذہ کے سوالات کا جواب دیا 🚨 جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے آج رات 12 بجے سے پاکستان کی جانب جانے والے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو غیر معینہ مدت تک کیلئے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔*سیاح حضرات جو کشمیر میں پھنسے ہوئے ہیں فورأ وہاں سے نکلیں۔۔۔۔*
توشہ خانہ ٹو کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد عمران خان اور بشری بی بی کو اڈیالہ جیل سے سب جیل اکٹھے ایک جگہ رکھنے کا فیصلہراولپنڈی قاسم مارکیٹ کے علاقے میں خصوصی جیل تیار کرلی گئی
***کشمیر کے غیور عوام نے مفاد پرست عناصرکی احتجاجی کال کو یکسر مسترد کردیا*آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی احتجاجی کال بری طرح ناکام ہو گئی ہے، *ذرائع*بیشتر شہروں میں بازار اور دکانیں کھلی ہیں اور معمولات زندگی رواں دواں ہیں، *ذرائع*کچھ مفاد پرست عناصر نے ہڑتال کی ناکامی کے پیش نظرامن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی، *ذرائع*قانون نافذ کرنے والے اداروں نے توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کیخلاف قانونی کارروائی شروع کردی ہے، *ذرائع*سکیورٹی ادارے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنےکیلئے مصروف عمل ہیں، *ذرائع*کسی کو بھی اپنے مذموم عزائم کیلئے معمولات زندگی کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، *ذرائع*عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور ہنگامہ آرائی میں ملوث افرادکیخلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی، *ذرائع*
مظفرآباد میں مسلم کانفرنس کی امن ریلی پر جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلح شر پسندوں کا حملہ ۔ ذرائع عوامی ایکشن کمیٹی کے مُسلح شر پسندوں نے اپنے ناکام اختجاج کا غصہ عوام پر نکالنا شروع کر دیا عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلح شر پسندوں کی فائرنگ سے گیارہ شہری زخمی۔ ذرائع بٹل میں بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے مُسلح شر پسندوں نے ایمبولنس کا راستہ روک لیا جسکی وجہ سے بزرگ شہری محمد صادق وفات پا گئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مُسلح شر پسند غلیلوں اور ہتھیاروں سے پولیس پر حملے بھی کر رہے ہیں، جو صاف ظاہر کرتا ہے کے عوامی ایکشن کمیٹی کے عزائم شروع سے شر پسندانہ تھے علاقے کے عوام نے ایمبولنس روکے جانے پر غصے میں آ کر عوامی ایکشن کمیٹی کی کھڑی روکاوٹیں اٹھا کر پھینک دی عوامی ایکشن کمیٹی کی ریلی میں اشتہاریوں کی موجودگی کا انکشاف ۔ ذرائععوامی ایکشن کمیٹی کی ہلڑ بازی اور درندگی کے خلاف عوام سراپا احتجاجقانون نافذ کرنے والے اداروں نے شر پسندوں اور لیڈران کے خلاف قانونی کاروائی شروع کر دی
نااہلی کی قیمت : انکار کا خمیازہدنیا کی جدید تاریخ میں بہت کم اقوام ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ہی صلاحیت اور امکانات کو اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ ضائع کیا ہو جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس ملک کی جمہوری کاوشیں محض بیرونی سازشوں یا خطے کی مداخلت سے نہیں ڈگمگائیں بلکہ اصل وجہ اپنی ہی سیاسی قیادت کی ہمہ گیر نااہلی اور مسلسل ناپختگی ہے۔ پاکستان کے سیاسی انتشار کے مرکز میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے: جنہیں آئین کی حفاظت اور جمہوری ڈھانچے کی پرورش کا امین بنایا گیا، وہ ہمیشہ بصیرت، ضبط اور ذہنی صلاحیت سے محروم نکلے۔ یہی کمی ایک ایسا مکروہ شیطانی چکر بنا چکی ہے جو بار بار لوٹ آتا ہے۔ جب بھی سیاسی قیادت لڑکھڑاتی ہے تو وہ فوجی قیادت کو مدد کے لیے پکارتی ہے، کبھی براہِ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں۔ یہ پکار قومی مفاد کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی مصلحت، سیاسی عدمِ تحفظ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے زیرِ اثر کی جاتی ہے۔ یوں سیاست دانوں نے فوج کو ریاستی نظم کا شراکت دار نہیں بنایا بلکہ اپنی ناکامیوں کا سہارا بنا دیا، اور یوں فوج کو ان معاملات میں گھسیٹا جہاں بنیادی طور پر عوامی نمائندوں کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ یہی تسلسل بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ سیاسی طبقہ اپنی ہی انتخابی نشستوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو پورے نظام کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ جو سیاست دان دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے، جو رعایت اور سفارش کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے، اور جو آئین کی حدود اور قانون کی حکمرانی پر قائم نہیں رہ سکتے، وہ جمہوریت کے امین کیسے بن سکتے ہیں؟
جو اپنی سیاسی ساکھ کو سہارا نہیں دے سکتے، وہ پورے نظام کی ساکھ کے محافظ نہیں بن سکتے۔ یہ المیہ حالیہ مہینوں میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ اور امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی صلاحیت کو بیوروکریسی میں نہیں بلکہ فوج میں دیکھتی ہے۔ ان اہم مواقع پر پاکستان کی نمائندگی وزراء یا تجربہ کار بیوروکریٹس نے نہیں کی بلکہ وزیرِ اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کھڑے تھے۔ مخالف عناصر نے اسے فوج کے “شہری آزادیوں پر قبضہ” اور “آئینی حدود سے تجاوز” کے طور پر پیش کیا، مگر درحقیقت یہ زیادہ تلخ حقیقت کی عکاسی تھی: دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی اصل پیشہ ورانہ صلاحیت کہاں ہے۔ اور وہ پیشہ ورانہ صلاح عوامی قیادت میں نہیں۔
یہ انحصار محض آج کا نہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اہم قومی و بین الاقوامی مذاکرات نے بارہا سول اداروں کی ناپختگی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ کشمیر تنازعہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دور ہوں یا غیر ملکی امداد کی شرائط، بڑے قومی منصوبوں کی نگرانی ہو یا مالیاتی بحران کا حل ہر جگہ سیاسی ناکامی نے ریاست کو کمزور کیا۔ پانی کے مذاکرات میں جماعت علی شاہ کا کردار، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی .آئی .اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا زوال، اور آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار کی سبکی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ سیاسی قیادت نے قومی مفاد کو بارہا اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ اس کے برعکس فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے اداروں جیسے امریکی محکمۂ خارجہ، برطانوی فارن آفس یا بین ا لاقوامی سلامتی کے دیگر اداروں کی سطح پر اپنی مہارت دکھا سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا سے مکالمے کی اصل نمائندہ اس لیے بنی کہ سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خلا کو پر کرنے کی ناگزیر صورت تھی۔ کچھ حلقے فوجی کردار کو براہِ راست غیر آئینی اور آمرانہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ تنقید اس منطقی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ فوجی مداخلت کسی خلا میں جنم نہیں لیتی بلکہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب سیاسی رہنما اپنی غفلت اور کمزوری سے بحران کو جنم دیتے ہیں تو پھر غیر سول ادارے مداخلت پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوج پر جمہوریت پر قبضہ کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قیادت نہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے، نہ آئین کی پاسداری کر سکتی ہے، اور نہ ہی ریاستی امور کی بنیادی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے، وہ کس منہ سے بالادستی کی دعوے دار بن سکتی ہے؟ اور عوام یا دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے؟ اس صورتِ حال کا حل بار بار کی مداخلت یا “سول بالادستی” کے اندھے نعرے نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی فکری، تنظیمی اور اخلاقی کمزوریوں کا اعتراف کرے۔ جب تک اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں ہو گا، کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہیں حقیقی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا، ایسا اتفاق جو وقتی جوڑ توڑ پر مبنی نہ ہو بلکہ ریاستی استحکام، قانون کی حکمرانی اور قومی ترجیحات پر پائیدار سمجھوتہ ہو۔ تبھی وہ ریاستی ذمہ داری سنبھالنے اور جمہوریت کے تحفظ کا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی پختگی سامنے نہیں آتی،
سول بالادستی کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ بالادستی سے پہلے صلاحیت ضروری ہے۔ خودمختاری صرف نعروں اور تقریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی، اس کے لیے بصیرت، ادارہ جاتی ضبط اور فکری طاقت درکار ہے۔ ان اوصاف کے بغیر پاکستان ہمیشہ اسی دائرے میں قید رہے گا: سیاسی قیادت ناکام، فوجی قیادت مداخلت کرتی ہوئی، اور ریاست معلق حیثیت میں جھولتی ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ انہوں نے بارہا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی، فوج کو وہاں گھسیٹا جہاں اس کا کام نہیں تھا، اور جمہوریت کو ایک سرکاری نوکریوں اور نوازشات کی منڈی میں بدل دیا۔ جب تک اس حقیقت کا اعتراف اور تدارک نہیں ہوتا، ریاست ایسے ہی خودساختہ بحرانوں میں پھنسی رہے گی، اور ہر نیا بحران پچھلے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اس سلسلے کی اگلی قسط ریاستی زوال کے ایک اور سنگین پہلو پر روشنی ڈالے گی: پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی۔ جس طرح سیاسی قیادت نے حکومت کو ترک کیا، اسی طرح عدلیہ نے بھی انصاف کو چھوڑ دیا۔ دونوں نے مل کر ریاست کو ایک نازک توازن پر لٹکا دیا ہے، جہاں نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی قانون۔ (جاری ہے)
دفتر وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ قیصر احمد شیخ چنیوٹ تاریخ: 28 ستمبر 2025*سیلاب متاثرین کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے، قیصر احمد شیخ*چنیوٹ: وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ،
جناب قیصر احمد شیخ نے آج سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان کی مکمل بحالی کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے
۔وفاقی وزیر نے کہا کہ نقصانات کے تخمینے کے لیے وفاقی و صوبائی ٹیمیں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر سروے کر رہی ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو فوری ریلیف اور معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔انہوں نے اس موقع پر ملکی خارجہ پالیسی کے حالیہ کامیاب پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے امریکہ، چین اور سعودی عرب سمیت بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
حالیہ اقتصادی معاہدے پاکستان کے مستقبل کے لیے “گیم چینجر” ثابت ہوں گے۔قیصر احمد شیخ نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا حامی رہا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران یہ موقف واضح طور پر پیش کیا ہے۔
وزیراعظم کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور نئے معاہدے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ سے آن لائن اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین کی جلد سے جلد بحالی کے لیے ہدایات جاری کی ہیں
اپنے دورے کے دوران وفاقی وزیر نے جامعہ آباد ریلیف کیمپ کا معائنہ کیا اور موضع نوشہرہ میں متاثرہ کسانوں کو جانوروں کے لیے چارہ بھی تقسیم کیا۔
*پاکستانی کھلاڑی نور زمان نے کینیڈا میں نیش کپ اسکواش ٹورنامنٹ جیت لیا*پاکستان کے نور زمان نے کینیڈا میں کھیلے گئے نیش کپ اسکواش ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔ فائنل میں انہوں نے مصر کے سیکنڈ سیڈ مصطفیٰ السرطی کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی۔ میچ 52 منٹ تک جاری رہا،
جس میں نور زمان نے پہلا گیم سخت جدوجہد کے بعد 19-17 سے جیتا۔ دوسرے اور تیسرے گیم میں بھی شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بالترتیب 11-7 اور 11-9 سے کامیابی حاصل کی، یوں تین صفر کی برتری کے ساتھ ٹورنامنٹ جیت لیا۔
تیسری جانب گائے کے بچھڑے ہندوتوا اور مودی اور اس کے پا;گل سنکی ساتھی!یہ بھی نا یہو-د-یوں کو دل سے پسند کرتے ہیں نا سلیبیوں کو نا کسی مسلمان نا بدھسٹوں کو بلکہ یہ واحد قوم ہے جو یہو-د کے بعد اپنے علاؤہ سب سے نفرت کرتی ہے۔ پاکستان کا وجود آج تک انہوں نے دل سے کبھی نا تسلیم کیا نا کریں گے اسی سبب سے، لیکن یہ بھی ایسے گڑھے میں گرنے جارہے ہیں کہ بہت زیادہ پچھتائیں گے، سب سے پہلے انکو سبق ملے گا۔
یہ گندخور سو-ر کی مثال ہیں جسے نا عقل ہے نا کوئی آئین و قانون مانتے کیونکہ یہ خدا بھی 33 کروڑ بتوں کی صورت مانتے بلکہ لگے ہاتھوں اسی سال ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی پوجا کر ڈالی۔ دراصل یہ خود کو صرف خود کو دنیا کی سب سے عقلمند قوم سمجھتے ہیں د-ھو-کہ ان کا مذ-ہب ہے خوشامد ان کا ایمان ہے۔ اور سفاکیت انکا عمل ہے۔ اور حسد ان کی رگ رگ میں ہے۔ جیسے سو-ر احمق اور بیشر-م جانور ہے یہ اسی کی بلکل ٹھیک ٹھیک مثال ہیں۔ ان کو رب تعالیٰ نے ایسا پھنسانا ہے کہ بلکل بے یارو مددگار ہو کر ہمارے گھیرے میں آئیں گے اور جس چیز سے بھا!گتے ہیں یعنی جہا!د وہی انکا آخری نصیب ہوگا ان شاءاللہ تعالیٰ لیکن خبردار اسے کمزور ہرگز مت سمجھنا اور چالبازی میں مکمل خینز-یر ہیں۔ چانکیہ کی باقیات خود کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اب تاریخ کی ساری کسر نکال کر رہے گی۔ ان شاءاللہ اللہ ھو اکبر!تحریکِ نظریہ پاکستان 🇧🇩🇵🇰🇸🇦🇵🇸🇹🇷🇦🇿🇨🇳⚔️
امریکی مسسلح افواج کے مرد اور خاتون پائلٹ نے ہتھیاروں سے لدے جہازوں کو اصرائیل لے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، انہیں پینٹاگون بلایا گیا اور زبردستی گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔براہِ کرم کلپ دیکھیں، اس سے پہلے کہ یہ انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے، اسے شیئر کریں۔ تاکہ پوری دنیا کو پتا چلے کہ فلصطین کی بربا!دی میں سب سے بڑا ہاتھ اور پہلا نمبر امریکہ کا ہے۔ 😢💔😭
ہیڈ اسلام وہاڑی کے قریب کار اور بس میں تصادم، 6 افراد جاں بحقجاں بحق ہونے والے کار سوار افراد فیصل آباد کے رہائشی تھے
نازیہ حسن سے کل بھی محبت کرتا تھا آج بھی اسے بہت یاد کرتا ہوں، طلاق کی خبریں جھوٹی ہیں وہ فوت ہوئی تو میری بیوی تھی ، زوہیب نے جو الزامات لگائے سب بے بنیاد ہیں ، نازیہ حسن نے میرے ساتھ شادی کے بعد گلوکاری چھوڑ دی ، جس کا اثر زوہیب پر پڑا اور وہ زیرو ہو کر رہ گیا ، اس نے چالیں چل کر ہماری شادی خراب کی ۔ نازیہ کی موت کینسر سے ہوئی اس کا سرٹیفکیٹ لندن کے ہسپتال نے جاری کیا جہاں وہ زیر علاج رہی۔ ۔۔۔نازیہ حسن کے شوہر معروف بزنس میں اشتیاق بیگ کے انکشافات
، 28 ستمبر 2025وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کا عالمی دن برائے رسائی معلومات (access to information) کے موقع پر پیغام معلومات تک رسائی کے عالمی دن کے موقع پر حکومت پاکستان ہر شہری کے اس بنیادی حق کی غیر متزلزل توثیق کرتی ہے کہ وہ معلومات کی تلاش، وصول اور ترسیل کرے۔ معلومات تک رسائی نہ صرف ایک جمہوری حق ہے بلکہ شفافیت، جوابدہی، اور عوامی خودمختاری کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے۔آج کی آپس میں جڑی ہوئی دنیا میں، معلومات کا آزادانہ بہاؤ اچھی حکمرانی کو مضبوط کرتا ہے، سماجی شمولیت کو فروغ دیتا ہے، اور ریاست اور اس کے لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔
باخبر معاشروں کے ذریعے ہی قومیں امن، انصاف، اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھ سکتی ہیں۔پاکستان نے قانون سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے شہریوں کے معلومات کے حق کی ضمانت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ ہم اس بات کے عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے کہ معاشرے کے تمام طبقے، خاص طور پر خواتین، نوجوان اور پسماندہ طبقات کو، ڈیجیٹل دور میں معلومات تک مساوی رسائی سے مستفید ہو سکیں۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن، حق تک رسائی قانون 2017 کے تحت، ایک جزوی عدالتی فورم ہے،
جو معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے اور شہریوں کی شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔ عوامی ریکارڈ کو محفوظ کرنے اور اس کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ڈیجیٹائزیشن کا عمل بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ آج کے دن، میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومتی اداروں، سول سوسائٹی، میڈیا، اور ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمز سے اپیل کرتا ہوں
کہ مل کر ایک زیادہ کھلی، شفاف، اور علم پر مبنی معاشرہ بنانے کے لیے کام کریں۔ ایسا کرکے، ہم اپنے لوگوں کو بااختیار بنا سکتے ہیں، اپنی جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں، اور پاکستان کے ترقی اور خوشحالی کی طرف سفر کو تیز کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم اپنی عزم کی تجدید کریں کہ ہم سب کے فائدے کے لیے معلومات تک عالمی رسائی کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے کام کریں گے۔
امریکی مسسلح افواج کے مرد اور خاتون پائلٹ نے ہتھیاروں سے لدے جہازوں کو اصرائیل لے جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، انہیں پینٹاگون بلایا گیا اور زبردستی گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔براہِ کرم کلپ دیکھیں، اس سے پہلے کہ یہ انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے، اسے شیئر کریں۔ تاکہ پوری دنیا کو پتا چلے کہ فلصطین کی بربا!دی میں سب سے بڑا ہاتھ اور پہلا نمبر امریکہ کا ہے۔ 😢💔😭
نااہلی کی قیمت : انکار کا خمیازہدنیا کی جدید تاریخ میں بہت کم اقوام ایسی ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ہی صلاحیت اور امکانات کو اتنی مستقل مزاجی کے ساتھ ضائع کیا ہو جتنا پاکستان نے کیا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اس ملک کی جمہوری کاوشیں محض بیرونی سازشوں یا خطے کی مداخلت سے نہیں ڈگمگائیں بلکہ اصل وجہ اپنی ہی سیاسی قیادت کی ہمہ گیر نااہلی اور مسلسل ناپختگی ہے۔ پاکستان کے سیاسی انتشار کے مرکز میں ایک تلخ حقیقت پوشیدہ ہے: جنہیں آئین کی حفاظت اور جمہوری ڈھانچے کی پرورش کا امین بنایا گیا، وہ ہمیشہ بصیرت، ضبط اور ذہنی صلاحیت سے محروم نکلے۔ یہی کمی ایک ایسا مکروہ شیطانی چکر بنا چکی ہے جو بار بار لوٹ آتا ہے۔ جب بھی سیاسی قیادت لڑکھڑاتی ہے تو وہ فوجی قیادت کو مدد کے لیے پکارتی ہے، کبھی براہِ راست اور کبھی اشاروں کنایوں میں۔ یہ پکار قومی مفاد کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی مصلحت، سیاسی عدمِ تحفظ اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش کے زیرِ اثر کی جاتی ہے۔ یوں سیاست دانوں نے فوج کو ریاستی نظم کا شراکت دار نہیں بنایا بلکہ اپنی ناکامیوں کا سہارا بنا دیا، اور یوں فوج کو ان معاملات میں گھسیٹا جہاں بنیادی طور پر عوامی نمائندوں کی عمل داری ہونی چاہیے تھی۔ یہی تسلسل بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔
سیاسی طبقہ اپنی ہی انتخابی نشستوں کی حفاظت نہیں کر پاتا تو پورے نظام کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ جو سیاست دان دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے، جو رعایت اور سفارش کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے، اور جو آئین کی حدود اور قانون کی حکمرانی پر قائم نہیں رہ سکتے، وہ جمہوریت کے امین کیسے بن سکتے ہیں؟ جو اپنی سیاسی ساکھ کو سہارا نہیں دے سکتے، وہ پورے نظام کی ساکھ کے محافظ نہیں بن سکتے۔ یہ المیہ حالیہ مہینوں میں پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ اور امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری پاکستان کی صلاحیت کو بیوروکریسی میں نہیں بلکہ فوج میں دیکھتی ہے۔ ان اہم مواقع پر پاکستان کی نمائندگی وزراء یا تجربہ کار بیوروکریٹس نے نہیں کی بلکہ وزیرِ اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کھڑے تھے۔ مخالف عناصر نے اسے فوج کے “شہری آزادیوں پر قبضہ” اور “آئینی حدود سے تجاوز” کے طور پر پیش کیا، مگر درحقیقت یہ زیادہ تلخ حقیقت کی عکاسی تھی: دنیا بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی اصل پیشہ ورانہ صلاحیت کہاں ہے۔ اور وہ پیشہ ورانہ صلاح عوامی قیادت میں نہیں۔ یہ انحصار محض آج کا نہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اہم قومی و بین الاقوامی مذاکرات نے بارہا سول اداروں کی ناپختگی اور نااہلی کو بے نقاب کیا۔ کشمیر تنازعہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ، بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دور ہوں یا غیر ملکی امداد کی شرائط، بڑے قومی منصوبوں کی نگرانی ہو یا مالیاتی بحران کا حل ہر جگہ سیاسی ناکامی نے ریاست کو کمزور کیا۔ پانی کے مذاکرات میں جماعت علی شاہ کا کردار، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی .آئی .اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا زوال، اور آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار کی سبکی اس حقیقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ سیاسی قیادت نے قومی مفاد کو بارہا اپنی کمزوریاں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔
اس کے برعکس فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے اداروں جیسے امریکی محکمۂ خارجہ، برطانوی فارن آفس یا بین ا لاقوامی سلامتی کے دیگر اداروں کی سطح پر اپنی مہارت دکھا سکتی ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا سے مکالمے کی اصل نمائندہ اس لیے بنی کہ سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو گئے۔ یہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک خلا کو پر کرنے کی ناگزیر صورت تھی۔ کچھ حلقے فوجی کردار کو براہِ راست غیر آئینی اور آمرانہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ تنقید اس منطقی حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ فوجی مداخلت کسی خلا میں جنم نہیں لیتی بلکہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب سیاسی رہنما اپنی غفلت اور کمزوری سے بحران کو جنم دیتے ہیں تو پھر غیر سول ادارے مداخلت پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوج پر جمہوریت پر قبضہ کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت پہلے ہی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سیاسی قیادت نہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے، نہ آئین کی پاسداری کر سکتی ہے، اور نہ ہی ریاستی امور کی بنیادی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے، وہ کس منہ سے بالادستی کی دعوے دار بن سکتی ہے؟
اور عوام یا دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے؟ اس صورتِ حال کا حل بار بار کی مداخلت یا “سول بالادستی” کے اندھے نعرے نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی فکری، تنظیمی اور اخلاقی کمزوریوں کا اعتراف کرے۔ جب تک اپنی کمزوریوں کا ادراک نہیں ہو گا، کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ اس کے بعد انہیں حقیقی سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا، ایسا اتفاق جو وقتی جوڑ توڑ پر مبنی نہ ہو بلکہ ریاستی استحکام، قانون کی حکمرانی اور قومی ترجیحات پر پائیدار سمجھوتہ ہو۔ تبھی وہ ریاستی ذمہ داری سنبھالنے اور جمہوریت کے تحفظ کا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سیاسی پختگی سامنے نہیں آتی، سول بالادستی کے نعرے کھوکھلے رہیں گے۔ بالادستی سے پہلے صلاحیت ضروری ہے۔ خودمختاری صرف نعروں اور تقریروں سے محفوظ نہیں رہ سکتی، اس کے لیے بصیرت، ادارہ جاتی ضبط اور فکری طاقت درکار ہے۔ ان اوصاف کے بغیر پاکستان ہمیشہ اسی دائرے میں قید رہے گا: سیاسی قیادت ناکام، فوجی قیادت مداخلت کرتی ہوئی، اور ریاست معلق حیثیت میں جھولتی ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ انہوں نے بارہا ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی، فوج کو وہاں گھسیٹا جہاں اس کا کام نہیں تھا، اور جمہوریت کو ایک سرکاری نوکریوں اور نوازشات کی منڈی میں بدل دیا۔ جب تک اس حقیقت کا اعتراف اور تدارک نہیں ہوتا، ریاست ایسے ہی خودساختہ بحرانوں میں پھنسی رہے گی، اور ہر نیا بحران پچھلے سے زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اس سلسلے کی اگلی قسط ریاستی زوال کے ایک اور سنگین پہلو پر روشنی ڈالے گی: پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی۔ جس طرح سیاسی قیادت نے حکومت کو ترک کیا، اسی طرح عدلیہ نے بھی انصاف کو چھوڑ دیا۔ دونوں نے مل کر ریاست کو ایک نازک توازن پر لٹکا دیا ہے، جہاں نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی قانون۔ (جاری ہے)